رسائی کے لنکس

سی ٹی ڈی نے لاپتا بلوچ طالبِ علم حفیظ بلوچ کی گرفتاری ظاہر کر دی


Baloch students
Baloch students

بلوچستان کے شہر خضدار سے لاپتا ہونے والے قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علم حفیظ بلوچ منظر عام پر آگئے ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی کے ادارے (سی ٹی ڈی) نے دہشت گردی کے مقدمے میں ان کی گرفتاری ظاہر کر دی ہے۔

سی ٹی ڈی کا دعویٰ ہے کہ ان کے اہل کاروں نے 15 مارچ کو دو پہر 2 بج کر 30 منٹ پر حفیظ بلوچ کو جعفرآباد کے علاقے سیف آباد کے گوٹھ محمد مٹھل سے گرفتار کیا تھا۔

ایف آئی آر میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 15 مارچ کو اطلاع ملی کہ ایک نوجوان جو کہ کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم کا رکن ہے جس کے ہاتھ میں ایک بیگ ہے اور وہ جھل مگسی سے جعفرآباد کی طرف آ رہا ہے۔

جب فورسز موقع پر پہنچیں تو اس نوجوان نے اپنا نام حفیظ بلوچ بتایا۔ بیگ کی چیکنگ پر معلوم ہوا کہ اس میں بارودی مواد، ڈیٹونیٹر اور نٹ بولٹ سمیت دیگر سامان موجود تھا۔

سی ٹی ڈی حکام کے مطابق ملزم حفیظ بلوچ پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ادھر حفیظ بلوچ کے بڑے بھائی رضا بلوچ نے بھائی کے منظر ِعام پر آنے کی تصدیق کی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حفیظ بلوچ کے بھائی رضا بلوچ نے کہا کہ حفیظ بلوچ خیریت سے ہے اور اُس کی گرفتاری ظاہر ہونے پر اُن کے والد اور والدہ سمیت پورا خاندان خوش ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری حفیظ بلوچ سے ملاقات ہوئی ہے اور وہ خیریت سے ہے۔

اس سوال پر کہ حفیظ بلوچ تو خضدار سے لاپتا ہوئے تھے جعفر آباد میں گرفتار ظاہر کرنے پر آپ کس حد تک تشویش میں ہیں اس پر رضا بلوچ کوئی بھی جواب دینے سے گریزاں تھے۔

یادرہے کہ حفیظ بلوچ رواں سال8 فروری کو بلوچستان کے ضلع خضدار سے مبینہ طور پر لاپتا ہوئے تھے۔

اس وقت حفیظ بلوچ کے لواحقین نے وائس آف امریکہ کو بتایا تھا کہ وہ گزشتہ 9 ماہ سےاسلام آباد میں تھے۔ ان کی والدہ نے حفیظ بلوچ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی جس پر وہ خضدار آئے تھے۔ وہ لاپتا ہونے سے 10 روز قبل خضدار آئے تھے اور اس دوران ایک مقامی اکیڈمی میں بچوں کو فزکس پڑھاتے رہے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا ک8 فروری کو معمول کے مطابق حفیظ بچوں کو اکیڈمی میں پڑھا رہے تھے جہاں کچھ لوگ آئے اور انہیں اکیڈمی کے اندر سے اپنے ساتھ لے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے اور نہ ہی اس سے قبل حفیظ بلوچ نے ایسے کسی واقعے کی شکایت کی تھی۔

حیفظ بلوچ کا تعلق خضدار کے پسماندہ علاقے باغبانہ سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم خضدار میں حاصل کی۔ بعد ازاں فزکس میں ایم فل کرنے کے لیے قائد اعظم یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔

دوسری جانب بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ اگر حفیظ بلوچ کے منظر ِعام پر آئے ہیں اور انہیں عدالت میں پیش کیا گیا ہے تو یہ کوئٹہ اور اسلام آباد سمیت ملک کے دیگر حصوں میں حفیظ بلوچ کی بازیابی کے لیے چلائی گئی تحریک کا ثمر ہے۔

بلوچستان: لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے پیدل مارچ
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:52 0:00

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی اداروں کی جانب سے حفیظ بلوچ پر بنانے گئے مقدمات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں کیونکہ حفیظ بلوچ کے لاپتا ہونے کا مقدمہ خضدار میں ان والدین نے درج کرایا تھا۔

واضح رہے کہ حال ہی میں جبری گمشدگیوں کے خلاف کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز' نے حکومت کو لاپتا ہونے والے مزید 400 افراد کی فہرست فراہم کی تھی۔

تنظیم کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 2020 میں بڑی تعداد میں جبری گمشدہ افراد واپس اپنے گھروں کو لوٹے جب کہ 2021 میں لاپتا ہونے والے افراد کی بازیابی میں کمی آئی بلکہ مزید کچھ لوگ لاپتا بھی ہوئے۔

نصر اللہ بلوچ کے بقول 2019 سے اب تک تنظیم 875 لاپتا افراد کی ایک فہرست حکومتِ بلوچستان کو فراہم کر چکی ہے جن میں سے 470 افراد بازیاب ہو کر واپس اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔

دوسری جانب لاپتا افراد کمیشن کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کا کہنا ہے کہ اس نے 31 جنوری 2022 تک 6163 کیسزنمٹائے ۔ کمیشن کو 31 دسمبر 2021 تک مجموعی طور پر 8381 کیسزموصول ہوئے تھے جب کہ جنوری میں مزید 34کیس موصول ہوئے جس کے باعث مجموعی کیسز کی تعداد 8415 ہو گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG