رسائی کے لنکس

خیبر پختونخوا: خواجہ سراؤں کے خلاف تشدد کے واقعات؛ دس روز میں 4 ہلاک، 7 زخمی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں پر تشدد اور ہلاکتوں کے حالیہ واقعات کے بعد صوبے میں خواجہ سرا برادری میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔

خواجہ سرا برادری کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے عدم تحفظ کے اس ماحول میں کئی ایک خواجہ سرا بیرونِ ملک منتقل ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔

خوجہ سراؤں کی مقامی تنظیم 'بلیو وینز' نے برادری کے افراد کے قتل اور تشدد کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکام سے امتیازی سماجی رویوں کو ختم کرنے کے لیے مؤثر اقدمات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ان مطالبات کے باوجود خواجہ سرا افراد کے خلاف تشدد کے مہلک واقعات کسی طور کم نہیں ہورہے۔

بلیووینز کے اعداد و شمار کے مطابق 2015 سے اب تک صرف خیبر پختونخوا میں تشدد کے واقعات میں 85 خواجہ سرا ہلاک اور دو ہزار سے زائد زخمی ہو ئے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ زیادہ تر واقعات میں خواجہ سراؤں کو موسیقی کی تقریبات میں شرکت سے انکار کرنے کی وجہ سے قتل کیا گیا ۔

خواجہ سرا برداری کی سرگرم کارکن میڈم آرزو خان کہتی ہیں گزشتہ دس روز کے دوران پشاور، مردان اور مانسہرہ میں چار خواجہ سرا ہلاک جب کہ سات زخمی ہوئے لیکن ملزمان کے خلاف مقدمات درج ہونے کے باوجود انہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔

آرزو نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی برداری کے خلاف تشدد کے واقعات کے خلاف حال ہی میں پشاور میں ایک احتجاجی مظاہر ہ بھی کیا۔

'خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات میں اکثر خاندان کے افراد ہی ملوث ہوتے ہیں'

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ کانفلیکٹ اسٹڈیز کے پروفیسر اور ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر جمیل کہتے ہیں خواجہ سرا برداری کے افراد عمومی طور پر معاشرتی طور پر الگ تھلگ رہ کر اپنے ہی لوگوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ان پر تشدد کے واقعات میں اکثر خاندان کے فرد ہی ملوث ہوتے ہیں جو انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔

ڈاکٹر جمیل کے مطابق خواجہ سرا افراد کے خلاف تشدد بعض واقعات میں ان کی دوستیوں اور تعلقات میں اختلافات کی وجہ سے بھی سامنے آتے ہیں۔

خواجہ سراؤں کے قتل سے متعلق تھانوں میں رپورٹ ہونے والے زیادہ تر مقدمات میں قتل کی وجہ جرائم پیشہ افراد سے دوستی سے انکار سامنے آئی ہے۔

خواجہ سراؤں کے لیے 'رانی کا مدرسہ'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:53 0:00

خواجہ سراؤں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک مقامی تنظیم سے منسلک تیمور کمال کہتے ہیں خواجہ سراؤں پر ہونے والے پرتشدد واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف مقدمات انتہائی ناقص بنائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس قسم کے واقعات میں زیادہ تر ملزمان سزا سے بچ جاتے ہیں۔

خیبرپختونخوا پولیس کا دعویٰ ہے کہ خواجہ سرا افراد کے خلاف پیش آنے والے حالیہ واقعات میں ملوث اکثر افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی جاری ہے۔

پشاور کے سینئر پولیس عہدیدار ہارون الرشید نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تھانہ چمکنی کی حدود میں ایک خواجہ سرا کے اغوا میں مبینہ طور پر ملوث پانچ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جب کہ مانسہرہ پولیس نے بھی خواجہ سرا افراد کے خلاف تشدد کے واقعے میں ملوث ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کی پولیس کا کہنا ہے کہ خواجہ سرا افراد کے خلاف تشدد کے واقعات میں ملوث تمام ملزمان کو جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG