رسائی کے لنکس

متحدہ کے بھی پی ٹی آئی سے راستے جدا، اپوزیشن کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیوں کیا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی وفاق میں اہم اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے اس سے علیحدگی کا باقاعدہ اعلان کر دیا ہے اور پارٹی کے دونوں وفاقی وزرا نے اپنے استعفے وزیرِ اعظم کو بھیج دیے ہیں جس کے بعد بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکے ہیں۔

وفاق میں ایک اور اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) پہلے ہی حکومت سے الگ ہونے کا اعلان کر چکی ہے۔ ایم کیو ایم کے، جس کی محض سات نشستیں ہیں، حکومتی اتحاد چھوڑنے سے جہاں سیاسی تلاطم پیدا ہوا ہے وہیں موجودہ حکومت کا چلنا اب بظاہر ممکن نظر نہیں آ رہا۔

ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ نے اپوزیشن کے ساتھ چلنے کا جو فیصلہ کیا ہے اس میں کوئی ذاتی یا جماعتی مفاد شامل نہیں ہے اور معاہدے کی تمام شقیں ملک کے ان علاقوں کے عوامی مسائل سے متعلق ہیں جو اب خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔

ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اس معاہدے کا اعلان منگل کی شب کر دیا تھا کہ دونوں فریق یعنی متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے اور اس کی رسمی توثیق ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کی جانب سے کر دی گئی ہے۔

’ایم کیو ایم اس قابل نہیں ہے کہ آزادنہ فیصلے کر سکے‘

اب یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ ایم کیو ایم نے چند دن میں اپنا وزن وفاقی حکومت کے بجائے اپوزیشن کے پلڑے میں ڈال دیا؟ انگریزی اخبار ’ڈان‘ سے وابستہ سینئر صحافی اور کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کی سرگرمیوں کی کئی برس سے رپورٹنگ کرنے والے اظفر الاشفاق کا کہنا ہے کہ بظاہر متحدہ قومی موومنٹ نے ایک بار پھر اپنے ووٹرز کی رائے اور سیاسی حکمتِ عملی کے خلاف فیصلہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ متحدہ اپوزیشن کے ساتھ چلنے میں ایم کیو ایم کے اندر واضح تفریق تھی اور یہ مؤقف سامنے آتا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کسی بھی اتحاد میں عام انتخابات سے قبل جانا درست نہیں ہو گا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس مشکل فیصلے کے لیے ایم کیو ایم کی قیادت کو یقیناََ کوئی اشارے ملے ہوں گے کیوں کہ ان کے خیال میں ایم کیو ایم اس قابل نہیں ہے کہ وہ آزادنہ طور پر اپنے فیصلے خود کرسکے۔

انہوں نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کی قیادت میں بھی بعض ایسے فیصلے کیے گئے تھے جو اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابلِ قبول نہیں تھے جیسا کہ مارچ 2015 میں ایم کیو ایم نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کے لیے ووٹ دے گی جب کہ وہ متفقہ طور پر چیئرمین سینیٹ بننے میں کامیاب رہے تھے۔

عدم اعتماد کی تحریک : اسلام آباد میں غیر یقینی کی صورت حال
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:23 0:00

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اظفر الاشفاق کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت کے خلاف تالیاں بجانے سے لے کر غداری سمیت سنگین نوعیت کے مقدمات اس وقت انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں چھ سال سے چل رہے ہیں۔

ماضی میں ایم کیو ایم متحدہ اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے خلاف سنگین الزمات عائد کرتی رہی ہے۔ مبصرین کے مطابق یہی اس کی سیاست کا محور تھا۔ ایم کیو ایم کی قیادت بارہا کہتی آئی ہے کہ پیپلز پارٹی نے شہری سندھ ، جہاں ایم کیو ایم کا بڑا ووٹ بینک ہے، کے حقوق غضب کیے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی پالیسیوں کو نسل پرستانہ سیاست اور جاگیرداروں کی جماعت قرار دیتے ہوئے سندھ کو دو حصوں میں تقسیم کرکے جنوبی سندھ صوبہ بنانے کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔

’ایم کیو ایم کو عوام اور حریف جماعتوں کی سخت تنقید کا سامنا ہو گا‘

اظفر الاشفاق کے مطابق اس سب کے باوجود متحدہ اپوزیشن میں شامل ہونے پر ایم کیو ایم کو مزید عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جب کہ کنٹونمنٹ کے حالیہ انتخابات میں دیکھا گیا کہ ایم کیو ایم کئی علاقوں بشمول گلستان جوہر سے جیتنے میں ناکام رہی اور اس کے مقابلے میں جماعت اسلامی نے کافی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جب کہ مصطفیٰ کمال کی پاک سر زمین پارٹی کی شکل میں بھی اب انہیں ایک نئے حریف کا سامنا ہے۔

یاد رہے کہ ایم کیو ایم کو 2018 کے عام انتخابات میں کراچی سے اپنی کئی روایتی نشستیں تحریک انصاف کے ہاتھوں کھونا پڑی تھیں اور اسے ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی سے قومی اسمبلی کی 21 میں سے صرف تین نشستوں پر کامیابی ملی تھی جب کہ پی ٹی آئی کو 14 جنرل نشستوں پر کامیابی ملی تھی۔

’پیپلز پارٹی کے تعاون کے بغیر ایم کیو ایم کا ووٹر مطمئن نہیں ہوسکتا‘

بعض مبصرین کی رائے میں متحدہ قومی موومنٹ کا یہ فیصلہ سیاسی منظر نامے کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے جب کہ اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے اس بار بعض ایسی یقینی دہانیاں کرائی گئی ہیں اور انہیں تحریری شکل بھی دی گئی ہے جس کے بعد اس بات کی امید ہے کہ ایم کیو ایم سندھ کے شہری علاقوں میں رہنے والے اپنے ووٹرز کے لیے سرکاری نوکریوں میں کوٹا اور با اختیار بلدیاتی نظام بنانے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔

تجزیہ کار اور سندھ اخبار ’عوامی آواز‘ کے چیف ایڈیٹر ڈاکٹر عبدالجبار خٹک کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی ایک ساتھ رہ چکے ہیں اور ایک بار پھر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی قربت اور ایک ہی کیمپ میں رہنے کا فائدہ سندھ کے عوام کو ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک جانب اس کا سیاسی فائدہ جہاں پیپلز پارٹی کو پہنچے گا وہیں اب ایم کیو ایم بھی اپنے ووٹرز کے لیے بعض مطالبات منوانے میں کامیاب رہے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ متحدہ کو اپنے حامیوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے تعاون کی ضرورت ہو گی جو اس وقت سندھ میں اکثریت میں ہے اور آئندہ انتخابات، جب بھی ہوں، اس میں ایسا نہیں لگتا کہ کوئی پیپلز پارٹی کو شکست دے سکے گا۔

’معاہدے کے تحت بااختیار بلدیاتی نظام میسر آسکے گا‘

ایم کیو ایم کے ایک رہنما نے وائس آف امریکہ کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کی جماعت کے زیادہ تر خدشات پیپلز پارٹی ہی سے متعلق تھے۔ متحدہ اپوزیشن کے رہنما شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کی ضمانت میں طے شدہ معاہدے کے 27 نکات ہیں جن میں ایم کیو ایم کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ صوبے میں سرکاری نوکریوں کے لیے شہری اور دیہی آبادی کے مختص کوٹے پر عمل درآمد ممکن بنایا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے تحقیقات کے بعد غلط جاری کردہ ڈومیسائل منسوخ کیے جائیں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے علاوہ با اختیار بلدیاتی نظام کے تحت صوبے میں بلدیاتی اداروں کو انتظامی، مالی اور سیاسی اختیارات منتقل کیے جائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں بڑے ترقیاتی منصوبوں پر صوبائی حکومت ایم کیو ایم کو بھی اعتماد میں لے گی اور اس کی رائے کو شامل کیا جائے گا جب کہ بلدیاتی انتخابات کے بعد صوبائی فنانس کمیشن کا فوری اعلان اور اس کے ساتھ سندھ پولیس میں مقامی افراد کی تعیناتی کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG