رسائی کے لنکس

بلوچستان: خودکش حملہ آور بننے کے الزام میں خاتون کی گرفتاری پر احتجاج


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے صوبۂ بلوچستان کے علاقے ہوشاب سے مبینہ خاتون خودکش حملہ آور کی گرفتاری کے خلاف ضلع بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جا رہی ہے جب کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) شاہراہ پر خواتین اور بچوں نے دھرنا دے رکھا ہے۔

سیکیورٹی فورسز نےاتوار اور پیر کی درمیانی شب ہوشاب کے علاقے عرضو بازار میں ایک مکان پر چھاپہ مار کارروائی کرتے ہوئےنور جہاں نامی خاتون سمیت دو افراد کو حراست میں لیا تھا۔

سیکیورٹی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ نور جہاں سی پیک روٹ پر چینی قافلے کو نشانہ بنانا چاہتی تھی جن کے خلاف مکران ڈویژن کے تھانہ سی ٹی ڈی میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے جس میں دہشت گردی کی دفعات بھی شامل ہیں۔

ادھر نور جہاں کی گرفتاری کے خلاف تربت میں بدھ کو ایم ایٹ سی پیک شاہراہ پر احتجاجی دھرنا جاری ہے جس میں خواتین بھی شریک ہیں۔

نور جہاں کے خاوند فیض بلوچ نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اہلیہ پر عائد الزامات کی تردید کی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ میڈیا پر ان کے خاندان کے حوالے سے خبریں چلائی جارہی ہے کہ وہ دہشت گرد ہیں یہ سراسر جھوٹ ہے۔

فیض بلوچ کے بقول، "ہم غریب مزدور ہیں اور کسی دہشت گرد سے نہ ہمارا تعلق تھا، نہ ہے اور نہ ہی رہے گا۔"

زیرِ حراست خاتون کون ہیں؟

تحصیل ہوشاب کے علاقے عرضو بازار کے مکینوں کے مطابق نورجہاں ایک عام گھریلو خاتون ہیں۔

ان کے گھر قریبی ہمسایوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نور جہاں کو انہوں نے کبھی مشکوک سرگرمیوں میں ملوث نہیں پایا۔

بتایا جاتا ہے کہ نور جہاں کا تعلق قلاتک کے علاقے سے ہے اور ان کی شادی کیچ کے علاقے ہوشاب میں ہوئی ہے۔نور جہاں کے تین کم سن بچے ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ کراچی یونیورسٹی میں چینی لینگوئج سینٹر کے قریب تربت سے ہی تعلق رکھنے والی ایک خاتون شاری بلوچ نے چینی اساتذہ کی گاڑی پر خود کش حملہ کیا تھا۔ اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکریت تنظیم بلوچستان لیبریشن آرمی( بی ایل اے) کی ذیلی شاخ مجید بریگیڈ نے قبول کی تھی۔

سماجی اور انسانی حقوق کی کارکن ماہ رنگ بلوچ سمجھتی ہیں کہ کراچی واقعے کے بعد ریاست کے کریک ڈاؤن میں اضافہ ہوا ہے ۔ ان کے بقول کراچی یونیورسٹی میں بلوچ طلبہ کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا جا رہا ہے اور بعض طلبہ کو دو سے تین دن تک تحقیقات کے بہانے انہیں ان کے ہاسٹل میں ہی بند رکھنے کی اطلاعات بھی آئی تھیں۔

سیکیورٹی ادارے اور حکومت ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

ادھر بلوچستان کی قوم پرست سیاسی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی ) کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے بھی ہوشاب خاتون کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔

ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا ہے کہ سیاسی سربراہان کے اجلاس میں اُنہوں نے اس معاملے کو اُٹھایا ہے۔

اُن کے بقول اس طرح کے واقعات بلوچستان کے مسائل حل کرنے کے بجائے آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہیں۔

خاتون کے خلاف درج ایف آئی آر کے مطابق حساس اداروں کی جانب سے یہ اطلاع ملی کہ ہوشاب کے علاقے میں ایک مکان میں نور جہاں اور اُن کا ایک ساتھی موجود ہے جن کا تعلق بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی ذیلی شاخ مجید بریگیڈ سے ہے۔

ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مکان میں چھاپے کے دوران خاتون کے جسم پر باندھی گئی آٹھ کلو گرام وزنی خود کش جیکٹ ملی جب کہ مکان سے دھماکہ خیز مواد بھی قبضے میں لیا گیا۔

البتہ خاتون کے رشتے داروں نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

مبینہ خاتون خودکش حملہ آوار انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش

ادھر سی ٹی ڈی نے مبینہ خاتون خود کش حملہ آور نور جہاں سمیت ایک اور ملزم کومنگل کو تربت میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا۔

عدالت میں خاتون نے تمام الزامات سے انکار کیا ہے جب کہ وکلا کی ٹیم نے خاتون کو باعزت بری کرنے یا ضمانت پر رہا کرنے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کر دی ہے۔

'خاندان کے کسی فرد کو اندازہ نہیں تھا کہ شاری بلوچ یہ کر گزرے گی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:48 0:00

ادھر عدالت نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ گرفتار خاتون کو دو دن کے اندر دوبارہ عدالت میں پیش کرکے رپورٹ مرتب کریں۔

عدالت نے حکام کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ خاتون کو سی ٹی ڈی تھانے میں رکھا جائے اور انہیں ان کے قریبی رشتہ داروں سے ملنے کی مکمل اجازت دی جائے۔

گرفتار خاتون کے لواحقین نے الزام عائد کیا ہے کہ گرفتاری کے بعد ان پر تشدد بھی کیا گیا ہے تاہم سیکیورٹی فورسز نے اس الزام کو یکسر مسترد کیا ہے۔

XS
SM
MD
LG