وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کے خلاف سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان سمیت 14 ارکان اسمبلی کی حمایت سے تحریکِ عدم اعتماد بلوچستان اسمبلی میں جمع کرا دی گئی ہے۔
تحریکِ عدم اعتماد پر بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)، پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان اسمبلی کے دستخط موجود ہیں۔
دستخط کرنے والے ارکان میں سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان، سردار یار محمد رند، سردار سرفراز خان ڈومکی، عارف جان محمد حسنی، میر سلیم کھوسہ، میر ظہور بلیدی، ملک نعیم بازئی، مٹھا خان کاکڑ، اصغر خان اچکزئی، نواب زدہ طارق مگسی، شاہینہ کاکڑ اور بی بی فریدہ شامل ہیں۔
تحریکِ کے محرک سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے بلوچستان اسمبلی میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ حالات بہتری کی طرف جائیں مگر بلوچستان کے حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔
جام کمال خان کا کہنا تھا کہ آج ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ عبد القدوس بزنجو کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائی جائے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا حامی گروپ پہلے ہی دن سے ان کے ساتھ تھا۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم جماعتوں نے وزیرِ اعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ آج وقت آ گیا ہے کہ پی ڈی ایم وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پر وعدہ وفا کرے۔
گزشتہ برس اکتوبر میں بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان کے خلاف بھی ان کی اپنی جماعت کے ناراض ارکان اور اپوزیشن جماعتوں نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کی تھی، جب کہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نے تحریک کا سامنا کرنے کے بجائے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
میڈیا سے گفتگو میں سابق وزیر اعلیٰ جام کمال کا مزید کہنا تھا کہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو بھی بلوچستان عوامی پارٹی کے رکنِ اسمبلی ہیں اور وزیراعلیٰ بھی ہیں ۔ لیکن جس وقت جماعت میں اختلافات پیدا ہو رہے تھے تو انہوں نے وزارتِ اعلیٰ کے منصب سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور جمعیت علماء اسلام کے ارکان کے دستخط موجود نہیں ہیں۔
جام کمال خان نے ایک سوال پر بتایا کہ تحریکِ عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی مگر اب تک نئے قائد ایوان کے نام پر اتفاق نہیں ہوا، اس سلسلے میں اتحادیوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔