ضلعی پولیس افسر کے مطابق گڑی یوم میں 14 مئی کو دو خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا تھا۔ مرکزی ملزم مفرور تھا جب کہ خواتین کے ساتھ ویڈیو بنانے اور اسے وائرل کرنے والے مبینہ ملزمان پہلے ہی حراست میں تھے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق قبائلی اضلاع کے لیے مختص فنڈز خرچ نہیں کیے جا رہے جب کہ کئی محکموں کے دفاتر بھی ان اضلاع میں نہیں کھولے گئے اور نہ ہی ان کے اہلکار ان اضلاع میں تعینات کیے گئے۔
مبصرین نے داعش خراسان کو القاعدہ کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تنظیم افغانستان اور پاکستان کے امن و استحکام کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔
کابل میں وزارت خارجہ کے ترجمان گران ہیواد نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ مشترکہ تحقیقات کے حوالے سے افغانستان اور ایران کے سرحدی حکام کا پہلا باقاعدہ اجلاس آج ہوا۔
تاجروں کے مطابق پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر ڈھائی سے تین ہزار تک سامان سے لدھے ٹرک اور ٹرالر موجود ہیں۔ پاکستان کی حکومت روزانہ کی بنیاد پر 100 کے بجائے 500 سے 600 ٹرکوں کو افغانستان جانے کی اجازت دے۔
پولیس حکام نے بتایا کہ زخمیوں میں دو ٹریفک پولیس اہلکار، دو راہگیر اور ایک دکاندار شامل ہیں۔
احتجاجی مظاہروں میں پی ٹی ایم کارکنوں کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، پیپلزپارٹی، قومی وطن پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے کارکنوں اور عہدے داروں نے بھی شرکت کی۔
سردار عارف وزیر کے قتل کے خلاف پی ٹی ایم کی اپیل پر ملک کے اہم شہروں اور کئی بیرونی ممالک میں منگل کے روز مظاہرے کیے جائیں گے۔
سردار عارف وزیر گزشتہ جمعے کی شام افطاری سے تقریباً آدھ گھنٹہ قبل اس وقت شدید زخمی ہو گئے تھے جب کالے شیشوں اور بغیر نمبر پلیٹ کی ایک گاڑی میں سوار نامعلوم افراد نے ان پر گولیاں برسائیں۔
سردار عارف وزیر جنوبی وزیرستان کے مرکزی انتظامی مرکز وانا کے نواحی گاؤں غواخہ میں جمعے کی شام افطار سے قبل گھر کے باہر چہل قدمی کر رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کر دی۔
رشی کپور کے والد راج کپور، پشاور کے ڈھکی نعلبندی میں واقعے اسی حویلی میں پیدا ہوئے تھے جو ان کے والد پرتھوی راج کپور نے 1918 میں تعمیر کرائی تھی۔ عمارت کی تعمیر میں چار سال صرف ہوئے۔
پشاور ہائی کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں کہا گیا تھا کہ جنوبی وزیرستان میں داخلے کے لیے انتظامیہ کی طرف سے راہداری سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا گیا ہے جو آئین کی خلاف ورزی ہے۔
حکام کے مطابق دتہ خیل میں ہونے والی جھڑپ میں 4 اہلکار اور 7 دہشت گرد ہلاک ہوئے جب کہ میر علی میں سیکیورٹی ادارے کا ایک نوجوان اور ایک عسکریت پسند مارے گئے۔
پشاور شہر کے چوک فوارہ، قصہ خوانی بازار، چوک یادگار اور یونیورسٹی روڈ پر قائم بازار اور دکانیں خریداری کے مصروف ترین مراکز ہوا کرتے تھے۔ مگر اب ایسا نہیں۔ ان تمام بازاروں میں گنے چنے افراد اور چند ایک دکانیں ہی کھلی ہیں۔ دکان دار اور چھابڑی فروش گاہگوں کی راہ تک رہے ہیں۔
غلام خان کی سرحدی گزرگاہ کے قریب شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ڈرائیورز اور ٹرانسپورٹرز کو بھی واپسی کی اجازت کا انتظار ہے۔ کابل اور جلال آباد میں پھنسے پاکستانی شہریوں کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔
حکام کے مطابق افغانستان سے واپس آنے والوں کو ضلعے خیبر میں خصوصی قرنطینہ مراکز میں رکھا جا رہا ہے۔ اسکریننگ، ٹیسٹ اور طبی معائنے کے بعد صحت مند افراد کو جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔
ڈاکٹروں کے تنظیم کے سربراہ رضوان کنڈی کے مطابق زیادہ تر ہلاکتوں کی وجہ عوام بالخصوص مریضوں اور ان کے رشتہ داروں کی جانب سے حکومت اور ڈاکٹروں کے ساتھ عدم تعاون ہے۔
سیکیورٹی حکام کے مطابق اتوار کی شب ہونے والے اس حملے میں سیکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائی میں پانچ مبینہ دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
سرحد پار افغانستان سے طورخم کے راستے پاکستان واپس آنے والے لوگوں کو خصوصی گاڑیوں اور ایمبولینسز کے ذریعے لنڈی کوتل کے ڈگری کالج میں قائم قرنطینہ مرکز میں منتقل کیا جارہا ہے۔
عسکریت پسندوں نے ایک ماہ کے دوران تین موبائل فون ٹاورز دھماکہ خیر مواد سے اڑا دیے۔ ہزاروں قبائلی موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولیات سے محروم ہو گئے ہیں۔
مزید لوڈ کریں