پشتون تحفظ تحریک کے سرکردہ قبائلی رہنما سردار عارف وزیر کو، جنہیں دو دن قبل نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا، ان کے آبائی علاقے وانا کے نواحی گاؤں غواخہ میں اتوار کے روز سپرد خاک کر دیا گیا۔
عارف وزیر کے جنازے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور اس موقع پر حکومت مخالف نعرے بھی لگائے گئے۔
سردار عارف وزیر گزشتہ جمعے کی شام افطاری سے تقریباً آدھ گھنٹہ قبل اس وقت شدید زخمی ہو گئے تھے جب کالے شیشوں اور بغیر نمبر پلیٹ کی ایک گاڑی میں سوار نامعلوم افراد نے ان پر گولیاں برسائیں۔
ہفتے کی دوپہر وہ اسلام آباد کے پمز اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گئے۔
اسلام آباد سے عارف وزیر کی میت ہفتے کی رات کو ہی خیبرپختونخوا کے جنوبی شہر ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کی گئی اور آبائی علاقے جنوبی وزیرستان لے جانے سے قبل ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں خیبر پختونخوا، بلوچستان اور دیگر علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
عارف وزیر جنوبی وزیرستان سے ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کے چچازاد بھائی تھے اور 2005 سے اب تک اس خاندان کے ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ افراد بم دھماکوں اور گھات لگا کر کیے گئے حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں علی وزیر کے والد ملک مرزا علی خان، عارف وزیر کے والد ملک سعد اللہ خان، دونوں قبائلی رہنماؤں کے بیٹے، پوتے، نواسے اور دیگر قریبی رشتے دار شامل ہیں۔
سردار عارف وزیر نے 2005 میں اس وقت اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا جب علی وزیر جیل میں تھے اور ایک بم حملے میں ان کے چچا، والد، بھائی اور چچازاد سمیت سات افراد نشانہ بنایا گیا تھا۔
2018 کے عام انتخابات سے چند ہفتے قبل عارف وزیر اور علی وزیر ساتھیوں سمیت عسکریت پسندوں ایک حملے میں بال بال بچ گئے تھے اور بعد میں ان دونوں کو سیکیورٹی فورسز نے امن و امان میں خلل ڈالنے کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔ تاہم 25 جولائی کے عام انتخابات سے چند روز قبل پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر انہیں رہائی مل گئی تھی۔
پشتون تحفظ تحریک کے رہنما عارف وزیر پر حملے اور قتل کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ اور مختلف مقامات پر ہونے والے اجتماعات میں تقریروں کے دوران عارف وزیر کے قتل کا ذمہ دار حکومتی اداروں کو ٹہرا چکے ہیں۔
منظور پشتین نے عارف وزیر کے قتل کے خلاف پانچ مئی کو احتجاج کرنے کی اپیل کی ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات اجمل وزیر نے بھی ایک مذمتی بیان جاری کیا ہے جب کہ عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنماؤں نے اس واقعہ کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔