رسائی کے لنکس

افغانستان میں دہشت گردی، کیا داعش خراسان دوبارہ فعال ہو رہی ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغانستان کے دارالحکومت کابل اور پاکستان سے ملحقہ سرحدی شہر جلال آباد میں دہشت گردی کے ہلاکت خیز واقعات کی ذمہ داری کے بارے میں متضاد الزامات اور دعوے سامنے آ رہے ہیں۔ جس کے بعد ایک بار پھر چند ماہ سے غیر فعال عسکریت پسند تنظیم داعش موضوع بحث بن گئی ہے۔

کابل کے زچہ بچہ اسپتال اور جلال آباد کے نواحی گاؤں خیوہ میں نمازِ جنازہ کے شرکا پر ہونے والے خودکش حملوں کی ذمہ داری افغان حکومت نے طالبان پر عائد کی ہے جب کہ صدر اشرف غنی نے افغان فوج کو طالبان کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کا حکم دیا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں افغان حکومت کے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے اسے داعش کی کارروائی قرار دیا ہے۔

افغانستان کے سرحدی صوبوں کنڑ اور ننگرہار میں گزشتہ سال نومبر اور دسمبر میں امریکی اور افغان افواج کی مشترکہ کارروائی میں داعش کے جنگجوؤں کو یا تو بھگا دیا گیا تھا اور یا اُنہیں گرفتار کرکے جیلوں میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

افغان حکام کے مطابق اس کارروائی میں چار ہزار سے زائد جنگجو گرفتار کیے گئے جن میں اکثریت غیر ملکیوں کی تھی۔

اس فوجی کاروائی کے بعد افغانستان میں داعش کے سربراہ عبد اللہ المعروف اسلم فاروقی قریبی ساتھیوں سمیت جنوبی شہر قندہار منتقل ہو گئے تھے۔

اسلم فاروقی کی قندہار منتقلی کے بارے میں متضاد اطلاعات سامنے آئیں۔ ایک طرف انہوں نے افغان حکومت کو کسی قسم کی تخریبی کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ تو دوسری طرف مارچ میں کابل کے وسط میں سکھوں کے ایک گردوارے پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری داعش نے ہی قبول کی۔

تاہم بعد ازاں افغان حکام نے اسلم فاورقی کو گرفتار کرکے قندہار سے کابل منتقل کر دیا۔ اب اسلم فاروقی اہل خانہ اور قریبی ساتھیوں سمیت افغان حکومت کی حراست میں ہیں۔

کابل اور جلال آباد میں دہشت گردی کے واقعات میں خواتین اور نوزائیدہ بچوں سمیت 40 سے زیادہ افراد ہلاک اور 62 زخمی ہوئے۔ جس کے بعد اب داعش خراسان نہ صرف افغانستان بلکہ دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث ہے۔

داعش خراسان دراصل شام اور عراق کی شدت پسند تنظیم داعش کا ہی ایک دھڑا ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں اس تنظیم کے جنگجو 2015 میں اُس وقت منظرِ عام پر آنا شروع ہوئے جب کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ایک موثر دھڑے نے سابق ترجمان شاہد اللہ شاہد کے سربراہی میں اس میں شمولیت کا اعلان کیا۔

اُس وقت قبائلی ضلع اورکزئی سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں نے اکثریت کی بنیاد پر داعش خراسان کے تنظیمی ڈھانچے پر حاوی ہو کر اورکزئی ہی کے حافظ محمد سعید کو اس کا پہلا سربراہ بنایا تھا۔

داعش خراسان کے پہلے اہم کمانڈر حافظ محمد سعید اور شاہد اللہ شاہد کو 2016 میں امریکہ نے ڈرون طیاروں میں نشانہ بنایا تھا۔ اب تک اس تنظیم کے پانچ سربراہوں میں سے چار کا تعلق پاکستان سے رہا ہے جب کہ ان پانچ سربراہان میں صرف دو زندہ ہیں۔ حافظ محمد سعید، ابو سعد اور افغان عسکریت پسند رہنما قاری عبد الحبیب لوگری امریکی ڈرون حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔

شاہد اللہ شاہد کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے اہم اور بااعتماد ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے۔

حکیم اللہ محسود نومبر 2013 میں امریکی ڈرون طیارے کے حملے میں نشانہ بنے تھے۔ ان کے ہلاکت کے بعد نہ صرف تحریک طالبان پاکستان دھڑے بندی کا شکار ہو گئی تھی بلکہ اورکزئی سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں نے شاہد اللہ شاہد کی قیادت میں داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی بیعت کی تھی اور داعش خراسان قائم کی تھی۔

نومبر 2013 کے بعد اورکزئی کے علاوہ جنوبی و شمالی وزیرستان اور پنجاب سمیت دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند بھی داعش خراسان میں شامل ہوئے۔

افغانستان کے صوبہ کنڑ سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ داعش خراسان کے تمام تر فیصلے 40 رکنی شوریٰ کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔

اس شوریٰ کے اراکین میں نصف سے زیادہ کا تعلق پاکستان جب کہ آٹھ کا تعلق افغانستان سے اور دیگر کا تعلق وسط ایشیائی ممالک ازبکستان، قازقستان سمیت ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر سے ہے۔

'داعش افغانستان اور پاکستان میں امن کے لیے خطرہ'

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند اور خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ نے داعش خراسان کو القاعدہ کا تسلسل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تنظیم افغانستان اور پاکستان کے امن واستحکام کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔

رستم شاہ مہند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ داعش دراصل ان مذہبی انتہا پسندوں کی تنظیم ہے جو اپنے آپ کو خوارج کہتے ہیں اور یہ لوگ صرف اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں۔

افغانستان میں داعش خراسان کے قیام اور طالبان کےخلاف منظم کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس میں امریکہ کے کردار کا سابق افغان صدر حامد کرزئی نے الزام لگایا تھا۔ جس کی بعد میں امریکی حکام نے تردید کر دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ نے بھی اس تنظیم کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھا۔ اسی وجہ سے اس تنظیم کے کمانڈروں اور جنگجوؤں کے خلاف امریکی ڈرون طیاروں کو استعمال کیا گیا۔

رستم شاہ مہمند نے کہا کہ 16-2015 میں جب داعش خراسان افغاستان میں جڑیں مضبوط کرنے میں مصروف تھی تو روس، ایران اور چین نے بھی اس تنظیم کو اپنے اپنے سیکیورٹی، سیاسی اور دفاعی اہداف کے لیے خطرہ سمجھا تھا اور اس کے خلاف افغان طالبان کو تعاون فراہم کرنا شروع کر دیا تھا۔

سابق سیکریٹری داخلہ اور سینئر پولیس عہدیدار سید اختر علی شاہ نے کہا کہ دراصل القاعدہ اور داعش ایک ہی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی تنظیمیں ہیں جب کہ امریکہ ان دونوں تنظیموں کے بارے میں دوغلی پالیسی اپنائے ہوئے تھا اور ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں عسکریت پسند تنظیموں کو امریکہ سمیت کئی ایک ممالک اپنے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ داعش کے خلاف جنگ میں ایران نے نہ صرف شام اور عراق بلکہ اس خطے میں امریکہ کے مفادات کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔

رستم شاہ مہند کا موقف ہے کہ پہلے ہی سے افغانستان کے بعض سرحدی صوبوں کنڑ، ننگرہار وغیرہ میں چونکہ سلفی یا وہابی مکتبہ فکر کے لوگ موجود تھے۔ اسی وجہ سے ان علاقوں میں داعش مضبوط اور موثر ہوئی۔

رستم شاہ مہمند نے داعش کے ظلم وستم اور خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک پر ذرائع ابلاع کی خاموشی پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ داعش کے جنگجو پیسے اور بندوق کے بل پر خواتین کے ساتھ زبردستی شادیاں کرتے اور توڑتے ہیں۔ دنیا بھر کا ذرائع ابلاغ اس پر خاموش ہے۔

XS
SM
MD
LG