پاکستان کے راستے افغانستان کی ٹرانزٹ ٹریڈ اور دونوں ممالک میں دوطرفہ تجارت کو کرونا وائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں کے نتیجے میں نقصان پہنچ رہا ہے۔
پاکستان کی جانب سے عائد پابندیوں کے نتیجے میں نہ صرف افغانستان کے تاجر مایوس ہو کر دیگر تجارتی راستوں کے تلاش میں ہیں بلکہ اس سے پاکستان کے تاجروں اور کمیشن ایجنٹوں کو بھی نقصان کا سامنا ہے۔
اپریل کے آغاز میں پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے افغان حکومت کی درخواست پر طورخم کی سرحدی گزرگاہ کو ٹرانزٹ ٹریڈ، اتحادی افواج کے سامان کی رسد اور پاکستان سے برآمدات کے لیے مشروط طور پر کھول دیا تھا۔
ہفتے میں صرف تین دن یومیہ 100 ٹرکوں کو پاکستان سے افغانستان جانے کی اجازت دی گئی جب کہ افٖغانستان سے پاکستان کے لیے درآمدات پر ابھی بھی پابندی عائد ہے۔
لاک ڈاؤن کے خاتمے پر اب ہفتے میں تین دن کے بجائے پانچ دن طورخم کے راستے سے افغانستان کے برآمدات شروع کی جا چکی ہیں۔
سرحدی قصبے لنڈی کوتل میں پھلوں اور سبزیوں کے تاجروں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان سے مطالبہ کیا کہ روزانہ کی بنیاد پر 100 کے بجائے 500 سے 600 ٹرکوں کو افغانستان جانے دیا جائے۔
پھلوں اور سبزیوں کے تاجر حاجی ابراہیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت صرف طورخم میں ڈھائی سے تین ہزار تک سامان سے لدھے ٹرک اور ٹرالر موجود ہیں۔ ان میں دیگر اشیاء کے علاوہ سبزیوں اور تازہ پھلوں کے ٹرک بھی شامل ہیں۔
تاجروں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو کئی ایک ٹرکوں اور ٹرالروں میں خراب ہونے والی سبزیاں اور پھل بھی دکھائے تھے۔ جو کئی دن سے طورخم، لنڈی کوتل اور ضلع خیبر میں مختلف مقامات پر کھڑے ہیں۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات اجمل وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغانستان کے ساتھ دو طرفہ تجارت اور برآمدات وفاقی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہے۔ صوبائی حکومت کو تاجروں اور کمیشن پر کام کرنے والوں کی مشکلات اور مسائل کا ادارک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا ہے۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ مسئلہ جلد از جلد حل کیا جائے۔
چند روز قبل قبائلی اضلاع خیبر، کرم، شمالی اور جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے تاجروں کے ایک وفد نے وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد سے بھی رابطہ کیا تھا جب کہ انہیں پھلوں اور سبزیوں سے لدھے ٹرکوں کو خصوصی طور پر اجازت دینے کی درخواست کی تھی۔ تاجروں کے مطابق مشیر تجارت کی یقین دہانی کے باوجود ابھی تک مسئلہ برقرار ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی صنعت و حرفت کے مشترکہ تنظیم کے نائب صدر ضیا الحق سرحدی نے کہا کہ اس وقت افغانستان سے پاکستان کے لے درآمدات مکمل طور پر بند ہے جب کہ پاکستان سے روزانہ کی بنیاد پر 100 ٹرکوں کو جانے کی اجازت ہے۔
ان کے مطابق ان 100 ٹرکوں میں نہ صرف پاکستان سے برآمدات بلکہ ٹرانزٹ اور افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کے لے سامان رسد کی گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
ضلع خیبر کے تاجر حاجی ابراہیم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت افغانستان کا دارو مدار پاکستان سے برآمد ہونے والے پھلوں اور سبزیوں پر ہے۔ اس سلسلے میں تاجروں نے کروڑوں روپے کے سودے کیے ہوئے ہیں مگر پاکستان کی جانب سے عائد پابندیوں کے نتیجے میں تاجروں کے یہ سودے ڈوبنے کا خدشہ ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ تازہ پھلوں اور سبزیوں میں کیلا، تربوز، لوکاٹ، امرود، بھنڈی، آلو، کریلا اور آم شامل ہے۔ جب کہ مارچ کے وسط سے اپریل کے آخر تک کینو اور مالٹا بھی افغانستان برآمد ہوتا رہا ہے جب کہ افغانستان میں پیدا ہونے والی سبزیوں اور پھلوں کے لیے پاکستان کی منڈیاں نہایت موزوں ہے تاہم درآمدت پر مکمل پابندی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کی صنعت و حرفت کے تنظیم کے نائب صدر ضیا الحق سرحدی نے کہا کہ 1965 میں دونوں ممالک کے درمیان ہونے والا ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاہدہ انتہائی بہترین تھا۔ اس معاہدے سے زیادہ فائدہ پاکستان ہی کو تھا کیونکہ پاکستان سے افغانستان برآمدات کا حجم زیادہ تھا مگر بدقسمتی سے امریکہ کے مداخلت پر 2010 میں ہونے والے معاہدے نے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت کو بہت متاثر کیا ہے۔
ضیا الحق سرحدی نے کہا کہ 2010 کے معاہدے کے تحت افغانستان جانے والی تمام اشیا کنٹینروں میں سر بمہر ہوگی اور یہ کنٹینر ریلوے کے بجائے ٹرکوں لے جائے جائیں گے۔
ان کے بقول اب افغان تاجروں اور پاکستان میں کمیشن پر کام کرنے والے ایجنٹوں کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ اس وقت کراچی میں ساڑھے سات سے آٹھ ہزار تک سامان سے لدھے کنٹینر موجود ہیں۔ غیر ملکی تجارتی کمپنیاں ان کنٹینروں کے بروقت واپس نہ کرنے پر لاکھوں ڈالرز جرمانہ یا سرچارج وصول کر رہی ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال دسمبر کے وسط میں پاکستانی تاجروں اور صنعت کاروں کے ایک وفد نے کابل جا کر ایران کی بندرگاہوں چاہ بہار اور بندر عباس کے ساتھ ساتھ وسط ایشیائی ممالک منقتل ہونے والی تجارت کو کراچی منتقل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ پاکستانی تاجروں کے بقول کراچی سے چمن اور طورخم تک رکاوٹوں اور مشکلات کو دیکھتے ہوئے افغان تاجر ایک بار پھر مایوس ہوئے ہیں۔