ابھی تک کسی نے فوزیہ کوفی پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی جب کہ طالبان کا کہنا ہے کہ ان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ فوری طور پر قیدیوں کے تبادلے کو مکمل کر کے افغان فریقوں کے درمیان بات چیت کا آغاز کیا جانا بے حد ضروری ہے۔ مسئلے کو حل کرنے کا یہ حقیقی اور منطقی راستہ ہے۔
اتوار کے روز طالبان کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کے دوران اس نئی پیش رفت کے بارے میں تصدیق کی، تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ مذاکرات کب شروع ہوں گے۔
یہ بم دھماکہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب افغان امن اور مفاہمت کے لیے امریکی خصوصی سفیر نے افغانستان کا ایک اور دورہ شروع کیا ہے، جس کا مقصد ملک میں سیاسی مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھانا ہے۔
افغان حکام نے بتایا ہے کہ جنگ زدہ ملک میں عالمی وبا سے متاثرہ افراد کی تعداد 1900 کے لگ بھگ ہے جب کہ 300 سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں۔
افغان حکومت کے میڈیا اور انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر فیروز بشیری نے دھماکے کی مذمت کی ہے۔
کشمیر پر سن 2003 میں طے پانے والا معاہدہ تقریباً بے اثر ہو چکا ہے اور آئے روز کی جھڑپیں روزمرہ کا معمول بن گیا ہے، جس سے یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر جھڑپیں دونوں ملکوں کے درمیان باقاعدہ جنگ کی شکل نہ اختیار کر لیں۔
افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ دونوں وفود نے دوحہ میں امریکہ طالبان امن معاہدے پر عمل درآمد کے بارے میں تبادلہ خیال کیا ہے۔
صوبائی حکومت کے ترجمان خلیل اسیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبہ زابل میں ہونے والے حملوں میں 14 افغان فوجی اور ایک عام شہری ہلاک ہوئے۔
کرونا وائرس کے مریضوں کی اطلاع کے بعد افغان حکومت نے فوری طور پر ایران کے لیے فضائی اور زمینی راستوں کے ذریعے سفر پر عارضی پابندی لگا دی ہے اور ایران سے انڈوں اور مرغیوں کی درآمد بھی روک دی ہے۔
یہ واقعہ جمعے کی رات ضلع قرہ باغ میں پیش آیا، جہاں سیکیورٹی فورسز کے سات افراد پر مشتمل ایک گروہ نے ایک مقامی افغان فوجی اڈے میں اپنے ہی ساتھیوں پر بندوقوں سے فائر کھول دیا۔
تشدد کے یہ واقعات ایک ایسے وقت میں رونما ہوئے ہیں جب پیر سے قطر میں امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کاروں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا ہے۔
افغان عہدے داروں نے اتوار کے روز بتایا کہ رات گئے وسطی صوبے دایکندی میں سیکیورٹی فورسز کی ایک چوکی پر جنگجو طالبان کے حملے میں 8 فوجی ہلاک اور 4 زخمی ہو گئے۔
اشرف غنی نے یہ بیان، صدر ٹرمپ کی جانب سے طالبان نمائندوں کے ساتھ افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی پر لگ بھگ ایک سال سے جاری مذاكرات اچانک ختم کرنے کے بعد دیا ہے۔
افغان کی وزارت دفاع نے اعلان میں کہا گیا ہے کہ بدخشاں صوبے کے ضلع وردوج کا قبضہ واپس لینے کے سلسلے میں ہونے والی کارروائی میں کم از کم سو سے زیادہ طالبان عسکریت پسند ہلاک ہو ئے۔
عہدے داروں نے اس پیش رفت کو روایتی طور پر کشیدہ تعلقات کے حامل دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان ایک اچھی خبر قرار دیا ہے۔
حکومت کی جانب سے دیے جانے والے اشتہار میں شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اگر طالبان کی جانب سے کوئی مشکوک حرکت دیکھیں تو حکام کو مطلع کریں۔
پچھلے ہفتے صدر اشرف غنی نے خیرسگالی کے طور پر اگلے دو مہینوں کے دوران تقریباً 900 قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر طالبان جنگجوؤں اور درجنوں دوسرے افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔
امریکی فوج نے کابل میں ہونے والے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی فوجی اہل کاروں کو معمولی زخم آئے ہیں۔
مزید لوڈ کریں