تشدد کے یہ واقعات ایک ایسے وقت میں رونما ہوئے ہیں جب پیر سے قطر میں امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کاروں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہوا ہے۔
افغان عہدے داروں نے اتوار کے روز بتایا کہ رات گئے وسطی صوبے دایکندی میں سیکیورٹی فورسز کی ایک چوکی پر جنگجو طالبان کے حملے میں 8 فوجی ہلاک اور 4 زخمی ہو گئے۔
اشرف غنی نے یہ بیان، صدر ٹرمپ کی جانب سے طالبان نمائندوں کے ساتھ افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی پر لگ بھگ ایک سال سے جاری مذاكرات اچانک ختم کرنے کے بعد دیا ہے۔
افغان کی وزارت دفاع نے اعلان میں کہا گیا ہے کہ بدخشاں صوبے کے ضلع وردوج کا قبضہ واپس لینے کے سلسلے میں ہونے والی کارروائی میں کم از کم سو سے زیادہ طالبان عسکریت پسند ہلاک ہو ئے۔
عہدے داروں نے اس پیش رفت کو روایتی طور پر کشیدہ تعلقات کے حامل دونوں ہمسایہ ملکوں کے درمیان ایک اچھی خبر قرار دیا ہے۔
حکومت کی جانب سے دیے جانے والے اشتہار میں شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اگر طالبان کی جانب سے کوئی مشکوک حرکت دیکھیں تو حکام کو مطلع کریں۔
پچھلے ہفتے صدر اشرف غنی نے خیرسگالی کے طور پر اگلے دو مہینوں کے دوران تقریباً 900 قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر طالبان جنگجوؤں اور درجنوں دوسرے افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔
امریکی فوج نے کابل میں ہونے والے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی فوجی اہل کاروں کو معمولی زخم آئے ہیں۔
افغانستان کی وزارت داخلہ اور کابل کے کئی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ مولوی سمیع اللہ ریحان دھماکے کے وقت امامت کر رہے تھے۔
امریکہ کا مطالبہ رہا ہے کہ امن عمل کے لئے طالبان جنگ بندی کریں۔ تاہم، طالبان نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا تھا۔
ایک مقامی سیکورٹی افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ فضائی حملہ صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ کے قریب اس مقام پر کیا گیا جہاں طالبان اور پولیس کے درمیان جھڑپ جاری تھی۔
داعش کے ’پاکستان صوبہ‘ آئی ایس پی پی نے اپنی تشہیر کے لیے قائم ’اعماق نیوز ایجنسی‘ پر ایک بیان میں اس ہفتے مستونگ میں ایک پاکستانی پولیس اہل کار کی ہلاکت کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
صوبائی حکومت کے ترجمان، نیک محمد نظری نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا ہے کہ طالبان کے ٹھکانوں کے خلاف فضائی کارروائیاں کی گئیں، جن کے نتیجے میں باغی ضلعے سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے
اقوام متحدہ نے اس مہینے افغانستان کے لیے امداد میں 61 ملین ڈالر کا اضافہ کیا ہے جس سے فوری طور پر خوراک، حفظان صحت کی چیزوں اور صاف پانی کی فراہمی کا بندوبست کیا جائے گا ساتھ ہی ساتھ بیت الخلا تک رسائی بھی ممکن بنائی جائے گی۔
اس امید کا اظہار طالبان کے ڈپٹی چیف اور قطر میں قائم طالبان کے پولیٹکل دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر نے جمعرات کو ایک خاص آڈیو پیغام کے ذریعے کیا
یہ بل ایسے موقع پر پیش کیا گیا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ افغان طالبان کے ساتھ مذاکرت میں مصروف ہے تاکہ امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ ختم ہو سکے۔
چین کے اس پراجیکٹ کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان روزانہ ہزاروں افراد کی آمد و رفت اور تجارتی قافلوں میں آسانیاں پیدا کرنا ہے جس سے دو ہمسایہ ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں مدد مل سکے گی۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کا سیاسی دفتر 2013ء سے کام کر رہا ہے لیکن اس دفتر کی کوئی قانونی یا سفارتی حیثیت نہیں ہے۔
افغان عہدے دار شاذ و نادر ہی اپنے سیکورٹی اہل کاروں کی ہلاکتوں کی تعداد بتاتے ہیں، لیکن پچھلے مہینے افغان صدر اشرف غنی نے کہا تھا کہ 2014 میں ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک 4500 سے زیادہ افغان سیکورٹی اہل کار مارے جا چکے ہیں۔
مزید لوڈ کریں