افغان صدر اشرف غنی نے جمعے کے روز ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے ہفتے کے دوران 2000 سے زیادہ طالبان جنگجو مارے گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ شورش پسند گروپ کو افغان تنازع کے فیصلہ کن سیاسی تصفیے کے لیے ان کے پاس آنا پڑے گا جو منتخب عہدے دار ہیں۔
اشرف غنی نے یہ بیان، صدر ٹرمپ کی جانب سے طالبان نمائندوں کے ساتھ افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی پر لگ بھگ ایک سال سے جاری مذاكرات اچانک ختم کرنے کے بعد دیا ہے۔ افغان حکومت کو ان مذاکرات سے الگ رکھا گیا تھا کیونکہ طالبان ان سے بات کرنے پر تیار نہیں تھے۔
ٹرمپ نے اپنے اقدام کا یہ کہتے ہوئے دفاع کیا کہ طالبان نے کابل کے حالیہ حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ شورش پسندوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں تیزی لائیں گے۔
صدر غنی نے ریلی میں دو ہزار طالبان جنگجوؤں کی ہلاکت کے متعلق تفصیلات نہیں بتائیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان اعداد و شمار کا تعلق امریکی عہدے داروں کی اس خبر سے تھا جس کے مطابق پچھلے ہفتے امریکی فوجی کارروائیوں میں ایک ہزار سے زیادہ طالبان جنگجو مارے گئے تھے اور پچھلے دس دنوں میں شورش پسندوں کو سخت نقصان پہنچایا گیا۔
طالبان نے صدر غنی اور امریکی عہدے داروں دونوں ہی کے دعوے مسترد کر دیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مخالفین نے انہیں اس پیمانے کا نقصان کبھی بھی نہیں پہنچایا اور نہ ہی ان میں اتنی صلاحیت ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان میں اتنے بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کی صلاحیت ہوتی تو افغانستان میں بیرونی حملہ آور جیت چکے ہوتے اور یہاں جہاد ختم ہو چکا ہوتا۔
ترجمان نے کہا کہ صدر ٹرمپ واشنگٹن میں بیٹھے ہیں اور ممکن ہے کہ ان کے جنرل افغانستان میں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے انہیں جھوٹی خبریں دے رہے ہوں۔
ترجمان نے اس کے برعکس یہ دعویٰ کیا کہ طالبان نے زمینی کامیابیاں حاصل کیں ہیں اور افغان فورسز اور ان کے غیر ملکی شراکت داروں کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران طالبان نے ملک کے مختلف حصوں میں 8 اضلاع پر قبضہ کیا ہے۔
دوسری جانب حکومت کے ایک ترجمان نے جمعے کے روز کہا کہ طالبان، افغان نیشنل ڈیفنس سیکورٹی فورسز کے شدید دباؤ میں ہیں۔
سرکاری میڈیا اور انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر فیروز بشری نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ دس دنوں میں افغان فورسز نے صوبہ بدخشاں میں تین اضلاع آزاد کروائے ہیں اور تخار، قندوز اور بغلان پر طالبان کے بڑے حملے پسپا کر دیے ہیں۔
دونوں فریقوں کے دعوؤں کی تصدیق کرنا ممکن نہیں ہے اور دونوں جانب سے عموماً اعداد و شمار بڑھا چڑھا کر پیش کیے جاتے ہیں۔
ایک ایسے موقع پر جب افغانستان میں امن عمل کا مستقبل غیر یقینی ہے اور ملک بھر میں روزانہ درجنوں افراد لڑائیوں کا ایندھن بن رہے ہیں، طالبان نے دھمکی دی ہے کہ وہ انتخابی عمل کو درہم برہم کرنے کے لیے سیکورٹی فورسز اور انتخابی منتظمین پر حملے کریں گے جس سے آنے والے دنوں میں خون خرابے کے خدشات پیدا ہو رہے ہیں۔
انتخابی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ سیکورٹی خدشات کے باعث الیکشن کے دن ملک کے 7000 پولنگ اسٹیشنوں میں سے تقریباً 2000 بند رہیں گے۔ افغانستان کے 407 اضلاع میں سے لگ بھگ نصف پر یا تو طالبان کا کنٹرول ہے یا ان کا اثر و رسوخ ہے۔ یہ زیادہ تر دیہی علاقے ہیں۔