رسائی کے لنکس

افغانستان: امن مذاکرات کی منسوخی کے بعد جھڑپوں میں اضافہ


حکام کے مطابق افغانستان کے کم از کم 10 صوبوں میں جھڑپوں کے مختلف واقعات ہوئے ہیں اور شمالی علاقوں میں شدید جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ (فائل فوٹو)
حکام کے مطابق افغانستان کے کم از کم 10 صوبوں میں جھڑپوں کے مختلف واقعات ہوئے ہیں اور شمالی علاقوں میں شدید جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ (فائل فوٹو)

طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد افغانستان میں جھڑپوں اور لڑائی کے واقعات میں شدت آگئی ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق حکام نے کہا ہے کہ امن معاہدہ منسوخ ہونے کے بعد افغانستان کے شمالی علاقوں میں جھڑپوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور لڑائیاں دوبارہ زور پکڑنا شروع ہو گئی ہیں۔

حکام کے مطابق افغانستان کے کم از کم 10 صوبوں میں جھڑپوں کی اطلاعات ہیں جب کہ شمالی علاقوں میں فورسز اور جنگجوؤں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق افغانستان کے صوبہ تخار، بغلان، قندوز اور بدخشاں میں شدید جھڑپوں کے بعد طالبان چند ہفتوں سے حکومتی فورسز کو پیچھے دھکیل رہے ہیں۔

افغانستان کی وزارتِ دفاع نے بدھ کو اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے افغان صوبے بدخشاں کے ایک ضلع سے طالبان کا قبضہ چھڑا لیا ہے۔ یہ علاقہ جولائی میں طالبان کے قبضے میں چلا گیا تھا۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی منسوخی کے بعد جھڑپوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ (فائل فوٹو)
امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی منسوخی کے بعد جھڑپوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ (فائل فوٹو)

واضح رہے کہ یہ بدخشاں صوبے کا تیسرا ضلع کورن وا مونجن ہے جو سکیورٹی فورسز نے مبینہ طور پر طالبان کے قبضے سے آزاد کرایا ہے۔

اس سے قبل گزشتہ دنوں یمغان اور وردوج نامی دو اضلاع کو بھی طالبان کے قبضے سے چھڑانے کا دعویٰ کیا گیا تھا جو طالبان کے قبضے میں گزشتہ چار سال سے تھے۔

'رائٹرز' کے مطابق افغانستان کے صوبے بغلان میں بھی شدّت پسندوں سے جھڑپیں جاری ہیں۔ البتہ سکیورٹی فورسز نے صوبے کو کابل سے ملانے والی مرکزی سڑک کو جزوی طور پر کلیئر کرا لیا ہے۔

دوسری جانب طالبان نے شدید لڑائی کے بعد پیر کو تخار صوبے کے مزید ایک ضلعے پر قبضہ کر لیا تھا اور 20 سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا۔

تخار صوبے کے گورنر کے ترجمان جواد ہیجری نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا تھا کہ دو روز تک جاری رہنے والی شدید لڑائی کے بعد سکیورٹی فورسز نے یہ علاقہ خالی کر دیا ہے۔

طالبان چند ہفتوں سے حکومتی فورسز کو پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
طالبان چند ہفتوں سے حکومتی فورسز کو پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

جواد ہیجری نے کہا ہے کہ حکومت نے شہریوں کی جانوں کے تحفظ کے لیے پسپائی اختیار کی ہے۔ ہمارے تازہ دم فوجی دستے اس علاقے میں پہنچ گئے ہیں جو جلد قبضہ چھڑا لیں گے۔

افغانستان میں لڑائیوں کے ان بڑھتے واقعات کو امریکی صدر کی جانب سے مذاکرات منسوخ کیے جانے کے بعد طالبان کے بڑھتے حملوں کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ امن مذاکرات کی منسوخی کے بعد طالبان نے دھمکی دی تھی کہ امریکہ اپنے اس فیصلے پر پچھتائے گا اور اس فیصلے سے مزید امریکی مارے جائیں گے۔

اس کے جواب میں امریکہ کے ایک سینئر فوجی عہدے دار نے کہا تھا کہ امریکی فوج بھی طالبان کے بڑھتے حملوں کو روکنے کے لیے اپنے آپریشنز میں مزید شدّت لائے گی۔

افغانستان کے ایک اعلٰی سکیورٹی عہدے دار کے مطابق امریکہ اور افغان فورسز نے رواں ہفتے پیر کو وردک میں فضائی حملے کیے تھے جس میں کم از کم سات شہری ہلاک ہوئے تھے۔

XS
SM
MD
LG