حوثی باغیوں کا بڑی تعداد میں سعودی فوجی گرفتار کرنے کا دعویٰ

یمن میں باغیوں نے سعودی سرحدی علاقے سے تین بریگیڈ کی گرفتاری کا دعویٰ کیا۔ سعودی حکومت نے کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا — فائل فوٹو

یمن کے حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے سرحدی قصبے پر قبضے اور بڑی تعداد میں سعودی فوجی گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق حوثی باغیوں کے ترجمان نے 'بی بی سی' کو بتایا کہ سعودی عرب کے تین بریگیڈ فوج نے حوثیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔

باغیوں کے ترجمان کرنل یحییٰ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے سرحدی علاقے نجران میں شدید لڑائی میں کئی فوجی مارے بھی گئے جبکہ متعدد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی افواج کو بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے اس کے ساتھ ان کے ہتھیار، گاڑیاں اور دیگر مشینری بھی تباہ ہوئی ہے۔

حوثی باغیوں کے دعوے پر سعودی حکومت کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔

کرنل یحییٰ نے مزید کہا کہ جب سے فریقین میں یہ تنازع شروع ہوا ہے اس وقت سے اب تک کا یہ سب سے بڑا آپریشن تھا جس میں سعودی عرب کی فوج نے ہتھیار بھی ڈالے ہیں۔

حوثیوں کے ترجمان کرنل یحییٰ کے مطابق آپریشن تین دن سے جاری تھا — فائل فوٹو

انہوں نے گرفتار فوجیوں کو حوثیوں کے ٹی وی چینل المسیرہ پر بھی دکھانے کا اعلان کیا تاہم فوری طور پر کسی بھی قسم کی ویڈیو فراہم نہیں کی گئی۔

قطر کے نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کی رپورٹ کے مطابق حوثی ترجمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سعودی فوج کے تین بریگیڈ گرفتار کیے ہیں جبکہ اس سے قبل حملے میں اسنائپر اور دیگر طریقے استعمال کرکے مخالف فوج کو گھیرے میں لیا گیا۔

برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق حوثیوں کے ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن گزشتہ 72 گھنٹوں سے جاری تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 14 ستمبر کو سعودی عرب میں موجود دنیا کی سب سے بڑی تیل تنصیبات آرامکو پر ڈرون طیاروں کے ذریعے حملے کیے گئے تھے۔

سعودی عرب میں تیل تنصیبات پر ڈرون سے حملے کیے گئے — فائل فوٹو

ان حملوں سے تیل کی پیداوار بھی کم ہو گئی تھی۔ حوثی باغیوں نے حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی لیکن امریکہ، یورپی طاقتوں اور سعودی عرب نے حملوں کا ذمے دار ایران کو قرار دیا تھا جبکہ ایران نے حملوں میں ملوث ہونے کے دعوے کو مسترد کر دیا تھا۔

ان ڈرون حملوں کے بعد امریکہ نے سعودی عرب مزید فوج بھیجنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ پینٹاگون کے مطابق سعودی عرب بھیجی جانے والی فوج کی یہ تعداد ہزاروں میں نہیں تاہم اس کا بنیادی مقصد دفاع ہے۔

اس سے قبل امریکہ سعودی عرب میں اینٹی میزائل سسٹم، ڈرونز اور طیارہ بردار جنگی بیڑہ تعینات کرنے کا بھی عندیہ دے چکا ہے۔

سرحدی علاقے نجران میں سعودی عرب نے 2015 سے بڑے پیمانے پر فوج تعینات کی ہوئی ہے — فائل فوٹو

گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ بھی سامنے آئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ یمن میں گذشتہ پانچ سال سے جاری جنگ میں تمام فریق انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور بین الاقوامی قانون سے انحراف کرکے جنگی جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

رپورٹ میں ایک طویل فہرست دی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ یمن کی حکومت، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا اتحاد جبکہ ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغی اور ان سے منسلک مسلح گروہ کیا کیا سنگین خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔

ان خلاف ورزیوں میں فضائی حملے، بلاامتیاز گولہ باری، گھات لگا کر قتل، بارودی سرنگوں کی تباہ کاریوں سمیت مختلف مظالم بھی شامل تھے۔ رپورٹ میں مظالم میں اذیت دینا، یک طرفہ کارروائیاں کرنا، حراست میں لینا، آبروریزی اور جنسی زیادتی کے واقعات شامل کیے گئے تھے۔

اقوام متحدہ نے یمن کو دنیا کا بدترین انسانی بحران قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کے دو کروڑ 40 لاکھ افراد یا 80 فی صد آبادی کے زندہ رہنے کا انحصار بین الاقوامی امداد پر ہے لیکن حملوں اور پابندیوں کے باعث خوراک، ادویات اور دیگر امداد لوگوں تک نہیں پہنچ پاتی۔

یمن میں 2015 سے جنگ جاری ہے جس میں بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہو چکا ہے — فائل فوٹو

رپورٹ میں اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ لڑائی میں شامل فریق فاقہ کشی کو جنگی حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ یمن تنازع 2015 میں اس وقت شروع ہوا تھا جب صدر عبدالرب منصور ہادی کی حکومت کے خلاف حوثیوں نے بغاوت کی تھی اور دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔

حوثی ملک کے شمالی علاقوں میں ایک موثر طاقت ہے جبکہ انہیں ایران کی بھر پور حمایت حاصل ہے۔

اس بغاوت کے بعد سعودی عرب نے دیگر عرب اتحادیوں کے ساتھ ملک کر صدر ہادی کی حمایت کی اور باغیوں کے خلاف حملوں کا آغاز کر دیا۔

گزشتہ چار سال سے اس تنازع میں ایک اندازے کے مطابق 70ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

حوثی باغی اور سعودی اتحاد روزانہ ہی ایک دوسرے پر حملوں اور نقصان کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔