|
اسلام آباد _ پاکستان نے ایک بار پھر افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد وہاں رہ جانے والے ہتھیاروں کے استعمال پر تشویش ظاہر کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ ہتھیار کالعدم شدت پسند تنظیمیں پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق افغان طالبان سے حکومتِ پاکستان نے متعدد بار مطالبہ کیا ہے کہ وہ اتحادی افواج کے ہتھیاروں کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔
پاکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان میں رہ جانے والا فوجی ساز و سامان نہ صرف ملکی سلامتی بلکہ خطے کے استحکام کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔
دوسری جانب طالبان حکومت نے پاکستان کے الزامات پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔ تاہم طالبان حکومت کے ڈپٹی ترجمان حمد اللہ فطرت نے جمعرات کو افغان ٹیلی وژن طلوع نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں تمام ہتھیار محفوظ ہیں اور کسی کو بھی ان کے غلط استعمال کی اجازت نہیں دی جارہی۔
گزشتہ ہفتے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کےلیے مستقبل کی امداد کا انحصار فوجی سازوسامان کی واپسی سے مشروط کیا تھا۔
اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد امریکی قانون سازوں کی جانب سے پیش کی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ امریکی انخلا کے نتیجے میں طالبان حکومت کے ہاتھ سات ارب ڈالر سے زائد مالیت کا امریکی فوجی سازوسامان لگا تھا۔
اگرچہ پاکستان نے افغانستان میں موجود امریکی فوجی سازوسامان کی واپسی کا براہِ راست کوئی مطالبہ نہیں کیا ہے۔ تاہم اسلام آباد مسلسل افغان طالبان سے یہ تقاضا کرتا رہا ہے کہ ان ہتھیاروں کو دہشت گردوں کی پہنچ سے دور رکھا جائے۔
ماہرین موجودہ حالات میں افغان طالبان پر سخت امریکی پالیسی کو سفارتی سطح پر پاکستان کے لیے امید کی ایک نئی کرن کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار کامران یوسف کہتے ہیں کہ امریکی صدر کے طالبان مخالف سخت مؤقف سے پاکستان کو بظاہر فائدہ ہو سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کامران یوسف نے کہا کہ اسلام آباد سمجھتا ہے کہ اگر امریکہ افغان طالبان پر دباؤ بڑھاتا ہے تو اس سے پاکستان کو ٹی ٹی پی سے متعلق معاملات حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
SEE ALSO: پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ؛ 'شدت پسندوں کا طریقہ واردات بدل رہا ہے'پاکستان کے وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے اپنے حالیہ دورۂ امریکہ کے دوران کہا تھا کہ ان کے دورے کا مقصد امریکی سیاست دانوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی ترتیب دینا ہے۔کیوں کہ ان کے بقول یہ جنگ صرف پاکستان کی نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کی مشترکہ لڑائی ہے۔
کامران یوسف کے بقول پاکستان کا مؤقف رہا ہے کہ اگرچہ ٹی ٹی پی اس وقت پاکستان کے لیے بڑا چیلنج ہےلیکن اس کے القاعدہ اور دیگر شدت پسند گروہوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اس لیے مستقبل میں ٹی ٹی پی کا ایجنڈا عالمی برادری کے لیے بھی خطرہ بن سکتا ہے۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے گزشتہ برس جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کالعدم تنظیم نے ملک بھر میں 1758 حملے کیے تھے جن میں زیادہ تر کارروائیاں سیکیورٹی فورسز کے خلاف تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ٹرمپ حکومت کو اقتدار سنبھالے چند ہی دن ہوئے ہیں لیکن افغانستان کے لیے ان کی پالیسی جارحانہ لگتی ہے۔
امریکہ کے وزیرِِ خارجہ مارکو روبیو نے بھی رواں ہفتے خبردار کیا تھا کہ اگر افغان طالبان کی تحویل میں مزید امریکی شہری ہوئے تو امریکہ ان کی اعلیٰ قیادت کے سر وں کی قیمت مقرر کرے گا۔
SEE ALSO: امریکہ طالبان رہنماؤں کے سروں کی بڑی قیمت مقرر کر سکتا ہے: وزیرِ خارجہ مارکو روبیوامریکہ میں مقیم سینئر تجزیہ کار جہانگیر خٹک کہتے ہیں امریکہ اس وقت افغانستان میں داعش کے خلاف جنگ میں طالبان کے ساتھ کسی حد تک رابطے میں ہے۔ تاہم واشنگٹن کبھی طالبان حکومت کو کھلی چھوٹ نہیں دے سکتا۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے پہلے دورِ اقتدار میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ امن معاہدہ طے پایا تھا جس کی بنیاد پر افغانستان سے امریکی انخلا ممکن ہوا تھا۔
جہانگیر خٹک کے مطابق صدر ٹرمپ اب دوبارہ اقتدار میں ہیں اور ان کی کوشش ہوگی کہ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے اور طالبان اپنی سرزمین کو دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں اسلام آباد کے لیے مسلسل تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں اور پاکستان توقع کر رہا ہے کہ افغان سرزمین اس کے خلاف استعمال نہ ہو۔
جہانگیر خٹک کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے درمیان دہشت گردی کے خلاف تعاون کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ ان کے بقول جب تک افغانستان اور خطے میں ایسے دہشت گرد موجود ہیں جو نہ صرف عام شہریوں بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے بھی ممکنہ خطرہ بن سکتے ہیں، تب تک پاکستان کی اس خطے میں اہمیت برقرار رہے گی۔
تجزیہ کار کامران یوسف کا کہنا ہے کہ طالبان مخالف امریکی مؤقف کو اپنانے سے قبل پاکستان کو یہ طے کرنا ہوگا کہ آیا وہ افغان طالبان کے موجودہ سیٹ اپ کے ساتھ مزید آگے بڑھ سکتا ہے یا نہیں۔
ان کے بقول پاکستان کی موجودہ پالیسی کا محور ٹی ٹی پی ہے اور جب تک اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکلتا اسلام آباد اور کابل کے تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب طالبان حکومت کو عالمی سطح پر کوئی تسلیم نہیں کر رہا، پاکستان کا طالبان مخالف امریکی لائن کو اپنانا کابل کے ساتھ تعلقات میں مزید بگاڑ کا باعث بن سکتا ہے۔