|
ویب ڈیسک -- افغانستان میں طالبان کے آنے کے بعد ملک سے جانے والی افغان ویمن کرکٹ ٹیم کی کھلاڑی تین برس بعد آسٹریلیا میں چیریٹی میچ کے لیے میدان میں اُتریں۔ کپتان ناہیدہ سپن کہتی ہیں کہ "یہ لمحہ تبدیلی کی تحریک" ثابت ہو گا۔
خیال رہے کہ افغانستان میں سال 2021 میں طالبان حکومت آنے کے بعد بڑی تعداد میں خواتین ایتھلیٹس اور کرکٹ ٹیم کی کھلاڑی ملک سے چلی گئی تھیں۔ طالبان حکومت نے خواتین کی تعلیم اور کھیلوں پر بھی پابندی لگا دی تھی۔
افغان خواتین کرکٹ ٹیم میں شامل کئی کھلاڑی پناہ گزین کے طور پر آسٹریلیا منتقل ہو گئی تھیں جہاں وہ جمعرات کو میلبرن میں چیریٹی میچ کھیلنے کے لیے جمع ہوئیں۔
اس میچ کا اہتمام 'کرکٹ ود آؤٹ بارڈرز' نامی چیریٹی نے کیا تھا جو اس کھیل میں لڑکیوں کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
'ہم یہاں تبدیلی کی تحریک شروع کر رہے ہیں'
میچ کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ناہیدہ سپن کا کہنا تھا کہ "ہم دوبارہ صرف اپنی ٹیم ہی نہیں بنا رہے بلکہ ہم یہاں سے تبدیلی کی تحریک بھی شروع کر رہے ہیں۔ ہماری اس میچ سے بڑی امیدیں ہیں کیوں کہ یہ میچ افغان خواتین کے لیے تعلیم، کھیل اور مستقبل کے لیے دروازے کھول سکتا ہے۔"
نومبر 2020 میں افغان کرکٹ بورڈ نے 25 پروفیشنل خواتین کرکٹرز کو کانٹریکٹس دیے تھے۔ لیکن خواتین کی کرکٹ ٹیم کو ایک ساتھ کھیلنے کا موقع ملنے سے قبل ہی اگست 2021 میں طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال کر خواتین کرکٹ ٹیم ختم کر دی تھی۔
افغان کرکٹ ٹیم کی رُکن فیروزہ امیری کہتی ہیں کہ "ہم نے یہاں تک پہنچنے کے لیے بہت سی قربانیاں دی ہیں۔ میں آسٹریلیا میں اپنی مرضی سے زندگی گزار سکتی ہوں۔ لیکن افغانستان کی صورتِ حال دل دہلا دینے والی ہے۔ وہاں کے حالات میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہے۔"
بیس برس قبل افغانستان میں خواتین کرکٹ کے پہلے پروگرام کی بنیاد رکھنے والی ڈیانا بارکزئی کہتی ہیں کہ جمعرات کا میچ حیرت انگیز لمحہ تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس سے دنیا کو یہ پیغام ملے گا کہ وہ افغان خواتین کے لیے کچھ کرے۔ خاص طور پر اُن کے لیے تعلیمی اداروں اور کام کے دروازے کھلنے چاہئیں۔
افغان کرکٹ بورڈ نے جن 25 خواتین کرکٹرز کو کانٹریکس دیے تھے، ان میں سے 22 آسٹریلوی شہروں میلبرن اور کینبرا میں رہائش پذیر ہیں۔
ان میں سے کچھ خواتین کھلاڑی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) سے یہ مطالبہ بھی کرتی رہی ہیں کہ پناہ گزینوں کی ٹیم کو آفیشل اسٹیٹس دیتے ہوئے انہیں عالمی مقابلوں میں شرکت کی اجازت دی جائے۔
گزشتہ برس ان خواتین کھلاڑیوں نے آئی سی سی کو ایک خط لکھا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ دکھ کی بات ہے کہ افغانستان کی مین کرکٹ ٹیم کو تو کھیلنے کی اجازت ہے، لیکن ہمیں نمائندگی سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ لیکن آئی سی سی نے اس مطالبے کو نظرانداز کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ افغانستان میں خواتین کے حقوق اور افغان کرکٹ ٹیم کو کھیل کی اجازت نہ دینے پر برطانوی سیاست دانوں نے انگلینڈ کرکٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ آئندہ ماہ چیمپئنز ٹرافی میں افغانستان کی مین کرکٹ ٹیم سے لاہور میں میچ نہ کھیلے۔
انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے بائیکاٹ کے مطالبے کی مزاحمت کی ہے اور اس کے چیف ایگزیکٹو رچرڈ گولڈ کا کہنا ہے کہ اس کے بجائے وہ آئی سی سی کےاجتماعی اقدام کی "حمایت" کریں گے۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے فل ممبر کے طور پر افغانستان پر لازم ہے کہ وہ اپنی خواتین کرکٹ ٹیم بھی بنائے۔ لیکن اس خلاف ورزی کے باوجود آئی سی سی نے افغانستان کی مین کرکٹ ٹیم کو عالمی مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت دے رکھی ہے۔
یہ رپورٹ' اے ایف پی 'سے لی گئی ہے۔
فورم