|
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کی جانب سے چین سے میزائل میں استعمال ہونے والے ایندھن کے اجزا منگوانے کی مغربی میڈیا کی ان رپورٹس پر اپنے پہلے تبصرے میں کہا ہے کہ وہ ان سے آگاہ ہے۔ تاہم اس نے ان رپورٹس کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا۔
ایران کے اس مبینہ اقدام سے متعلق وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں محکمہ خارجہ کے ترجمان نے 30 جنوری کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم ان پریس رپورٹس سے آگاہ ہیں، لیکن ہم انٹیلیجینس معاملات پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔
برطانیہ کے فنانشل ٹائمز اور امریکہ کے وال سٹریٹ جرنل اخبارات میں، بالترتیب 22 اور 23 جنوری کو شائع ہونے والی رپورٹوں میں مغربی حکام کا نام ظاہر کیے بغیر کہا گیا تھا کہ چین کے مشرقی ساحل کی بندرگاہ ننگبو کے قریب ایران کے پرچم بردار دو بحری جہازوں گلبون اور جایران پر تقریباً ایک ہزار میٹرک ٹن سوڈیم پرکلوریٹ لدا ہوا دیکھا گیا ہے۔
فنائشل ٹائمز نے اپنی رپورٹ مغربی ممالک کے سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے دی جب کہ وال سٹریٹ جرنل نے کہا کہ اس کی رپورٹ ایک مغربی اہل کار اور معاملے سے واقف افراد سے ملنے والی معلومات پر مبنی ہے۔
خبررساں اداروں نے کہا ہے کہ سوڈیم پرکلوریٹ کی یہ مقدار درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے 260 ایرانی میزائلوں کا ٹھوس ایندھن تیار کرنے کے لیے کافی ہے۔
مال بردار بحری جہازوں گلبون اور جایران پر امریکہ کے محکمہ خزانہ کی پابندیاں عائد ہیں ۔ محکمہ خارجہ کے مطابق ان پابندیوں کا تعلق ایسی اشیاء اور ٹیکنالوجی کا پھیلاؤ روکنے پر مرکوز ہے جس سے ایران کے میزائل یا دیگر ہتھیاروں کے پروگراموں کو فائدہ پہنچ سکتا ہو۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کے لیے ایرانی مشن کے ترجمان نے جمعے کے روز بھیجی گئی وائس آف امریکہ کی ایک ای میل کا جواب نہیں دیا جس میں گلبون اور جایران کے ذریعے سوڈیم پرکلوریٹ منگوانے کے متعلق سوال کیا گیا تھا۔
ایران اور چین کے درمیان عشروں سے اقتصادی اور فوجی شراکت داری قائم ہے۔ سن 2021 میں دونوں ملکوں کے درمیان مشترکہ فوجی مشقوں اور ہتھیاروں کی ترقی کا ایک معاہدہ ہوا تھا۔ تاہم معاہدے پر دستخطوں کے بعد سے دونوں فریقوں نے ایران کو چینی ہتھیاروں کی فروخت کی تصدیق نہیں کی ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل کے حملوں کے بعد ایران مزید کیا کر سکتا ہے؟چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤننگ 23 جنوری کو اپنی پریس بریفنگ میں مغربی میڈیا کی رپورٹس کے جواب میں کہا تھا کہ بیجنگ ایرانی بحری جہازوں کے معاملے کے حوالے سے لاعلم ہے۔ ترجمان نے یہ بات زور دے کر کہی کہ بیجنگ ہمیشہ اپنے برآمدی کنٹرول اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کی پاسداری کرتا ہے اور دوسرے ممالک کی عائد کردہ غیر قانونی یک طرفہ پابندیوں کو مسترد کرتا ہے۔
میزائل کے ٹھوس ایندھن میں استعمال ہونے والا امونیم پر کلوریٹ ، سوڈیم پرکلوریٹ سے تیار کیا جاتا ہے۔ امونیم پر کلوریٹ پر 35 ممالک کی ایک تنظیم نے ، میزائل ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے برآمدی کنٹرول عائد کیا ہوا ہے، تاہم اس معاہدے میں چین اور ایران شامل نہیں ہیں۔ جب کہ یورپ ، اس کے ایشیائی اتحادی اور روس برآمدی کنٹرول کے گروپ میں شامل ہیں۔
واشنگٹن میں قائم ایک تھنک ٹینک فاؤنڈیشن فار ڈیفنس آف ڈیموکریسی کے ایک ماہر بنہام بن طالبلو کہتے ہیں کہ ایران اپنے میزائلوں کے ٹھوس ایندھن کے لیے اپنا کیمیکل بناتاہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ گزشتہ سال اکتوبر میں اسرائیل کے فضائی حملے میں ایران کی میزائل ساز تنصیب کا ایک بڑا حصہ تباہ ہو گیا تھا۔ اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے ایران کو رسد کی فوری ضرورت ہے۔
طالبلو کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران چین سے زیادہ سے زیادہ کیمیکلز حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ تہران دیگر ممالک کے مقابلے میں بیجنگ کو زیادہ قابل بھروسہ شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔
SEE ALSO: چینی اور ایرانی ہیکرز تخلیقی مصنوعی ذہانت کو امریکی اہداف کے خلاف سائبر حملوں میں استعمال کر رہے ہیں: گوگلسمندری ٹریفک پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ میری لائن ٹریفک اور سی سرچر کے جائزوں کے مطابق گلبون کو 22 جنوری کو ننگبو کے ساحل پر ژوشن جزیرے کے قریب سمندر میں کم گہرائی پر دیکھا گیا جو ایک جہاز سے دوسرے جہاز میں سامان کی منتقلی کی جانب اشارہ تھا۔جب کہ مذکورہ تاریخ پر سمندری ٹریفک میں گلبون دکھائی نہیں دیا۔ عموماً سامان کی غیر قانونی منتقلی کے وقت بحری جہاز اپنا مانیٹرنگ سسٹم بند کر دیتے ہیں جس سے سمندری ٹریفک کا ٹریکنگ نظام اس کے محل وقوع سے بےخبر ہو جاتا ہے۔
22 جنوری کو گلبون کو شنگھائی کے قریب تائیکانگ بندرگاہ سے شمال کی سمت جاتے دیکھا گیا ۔ اس کے بعد وہ تین روز تک سمندر میں کھڑا رہا اور 25 جنوری کو اس کی سمت جنوبی چین کی بندرگاہ جوہائی تھی۔
فنانشل ٹائمز نے 22 جنوری کو نامعلوم ذرائع کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گلبون اور جایران تین ہفتے کے سفر کے بعد سوڈیم پرکلوریٹ ایران کی مطلوبہ بندرگاہ تک پہنچا دیں گے۔
ایران کو میزائل کے اجزا فراہم کرنے کی بنا پر چینی کمپنیوں پر طویل عرصے سے امریکی پابندیاں عائد ہیں۔
امریکہ نے 2008 میں ایرانی سرکاری دفاعی کمپنی پارچین کیمیکل انڈسٹریز اور 2022 میں اس کے مشتبہ ایجنٹوں پر ایرانی اسلامی انقلابی گارڈز کور کے استعمال کے لیے بیرون ملک سے بیلسٹک میزائل کے ایندھن سے متعلق سامان منگوانے پر پابندی عائد کی تھی۔
(وی اے اے نیوز)