چین: جوہری توانائی کا پروگرام پر کام جاری رہے گا

چین میں زیرتعمیر جوہری توانائی کے ایک پلانٹ کے باہر تعینات خصوصی فورس کا اہلکار

جاپان میں نیوکلیئر تباہی کے بعد چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا (Xinhua) نے کہا کہ چین نئے نیوکلیئر پلانٹس پر کام معطل کر رہا ہے تا کہ حکام موجودہ پلانٹس کی حفاظت کے معیاروں کی جانچ کر لیں۔ لیکن چین کے نائب وزیر برائے تحفظِ ماحول ژینگ لیجن کہتے ہیں کہ چین اپنی نیوکلیئر توانائی کی مجموعی پالیسیاں قائم رکھے گا۔

چینی لیڈروں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ جاپان میں نیوکلیئر بحران کے باوجود اپنے نیوکلیئر توانائی کے منصوبوں پر کام جاری رکھیں گے۔ ماہرین کہتےہیں کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے اور گرین ہاؤس گیسوں کے بخارات کم کرنے کے لیے چین کے لیے نیوکلیئر توانائی کا استعمال نا گزیر ہے۔

نیوکلیئر توانائی کے بارے میں چین کا تصور بالکل واضح ہے۔ چین میں آج کل 13 نیوکلیئر ری ایکٹر کام کر رہے ہیں۔ گذشتہ ہفتے ورلڈ نیوکلئیر ایسوسی ایشن نے کہا کہ چین میں 25 سے زیادہ نیوکلیئر پاور ری ایکٹرز پر کام جاری ہے اور مزید یونٹوں پر جلد ہی کام شروع ہونے والا ہے۔

جاپان میں نیوکلیئر تباہی کے بعد چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا (Xinhua) نے کہا کہ چین نئے نیوکلیئر پلانٹس پر کام معطل کر رہا ہے تا کہ حکام موجودہ پلانٹس کی حفاظت کے معیاروں کی جانچ کر لیں۔

لیکن چین کے نائب وزیر برائے تحفظِ ماحول ژینگ لیجن کہتے ہیں کہ چین اپنی نیوکلیئر توانائی کی مجموعی پالیسیاں قائم رکھے گا۔ انھوں نے یہ بات سالانہ نیشنل پیپلز کانگریس کے سالانہ اجلاس میں جاپان میں زلزلہ آنے کے ایک روز بعد کہی ’’چین جاپان سے کچھ سبق تو ضرور سیکھ سکتا ہے لیکن وہ نیوکلیئر توانائی کو ترقی دینے کے منصوبوں پر کام جاری رکھے گا۔ آج کل چین میں توانائی کی کل پیداوار میں نیوکلیئر توانائی کا حصہ صرف ایک فیصد ہے لیکن حال ہی میں منظور کیے جانے والے پانچ سالہ منصوبے میں 2015 تک نیوکلیئر توانائی کا حصہ چار گنا ہو جائے گا‘‘۔

شی ڈینگہوان (Shi Dinghuan) اسٹیٹ کونسل میں جو چین میں کابینہ کے برابر ہوتی ہے توانائی کے مشیر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جاپان کے نیوکلیئر بحران کی وجہ سے چین میں نیوکلیئر سیفٹی اسٹینڈرڈز پر خصوصی توجہ دی جائے گی۔ لیکن چین صرف اس لیے اپنی مجموعی پالیسی نہیں بدلے گا کہ کسی دوسرے ملک میں کوئی بڑا حادثہ ہو گیا ہے۔

شی توجہ دلاتے ہیں کہ امریکہ نے بھی یہی کہا ہے کہ اس کی نیوکلیئر توانائی حاصل کرنے کی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوں گی۔ شی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں قابلِ تجدید ذرائع سے توانائی پیدا کرنے کی کوششوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیئے، جیسے ہوا اور سورج کی توانائی۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ توانائی کے مجموعے میں نیوکلیئر پاور شامل رہنی چاہیئے، خاص طور سے اس لیے بھی کہ چین میں اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ توانائی کی مانگ بڑھتی رہے گی۔

ٹیسنگہوا یونیورسٹی (Tsinghua University) کے پروفیسر وانگ ہیبن (Wang Haibin) چین کی سویلین نیوکلیئر انڈسٹری کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں، چین میں نیوکلیئر توانائی کی ترقی کی رفتار میں تیزی آئی ہے۔ سرکاری طور پر 2020 تک چین میں 70 نیوکلیئر ری ایکٹرز تعمیر کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ وانگ کہتے ہیں کہ اگر یہ رفتار قائم رکھی گئی تو نیوکلیئر پلانٹس کی حفاظت اور تعمیراتی سامان اور دوسرے حفاظتی اقدامات کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ جاپان کے حالات کی روشنی میں چینی حکومت اپنے ہدف میں ردو بدل کر لے۔

چین میں نیوکلیئر تنصیبات کی تعمیر میں جدید تر ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے۔ حکام کو امید ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی بدولت چینی پلانٹس زیادہ محفوظ ہوں گے۔

(فائل فوٹو)

چین کی نیوکلئیرپاور انجینرئنگ کاروپوریشن کے نائب صدر لیو وائی (Liu Wei) نے جاپان کے آسائی شمبن (Asahi Shimbun) اخبار سے گذشتہ ہفتے کہا کہ چین جاپان کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے نیوکلیئر پاور پلانٹس تعمیر کر سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین میں سرکاری حکام کو مقامی لوگوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

گرین پیس کی لی یان کہتی ہیں کہ چین میں نیوکلیئر توانائی کی مخالفت نہ ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ چین کے لوگوں کو اس بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔’’پہلی بات تو یہ ہے کہ توانائی کی پالیسیاں اعلیٰ ترین سطح پر بنائی جاتی ہیں۔ صرف چند اعلیٰ سطح کے لوگ ہی اس میں شامل ہوتےہیں۔ اب تک چین میں نیوکلیئر توانائی کا فیصد استعمال بہت کم ہے اور چین کے لوگوں کے سامنے اور بہت سے مسائل ہیں خاص طور سے کوئلہ جلانا اور پانی اور ہوا میں اس سے پیدا ہونے والی آلودگی‘‘۔

وہ کہتی ہیں کہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ چین میں حکومت نے ماضی میں اس معاملے کو خفیہ رکھا ہے اور لوگوں کو معلومات میں شریک نہیں کیا ہے۔ تا ہم جاپان میں نیوکلیئر تباہی سے چین میں نیوکلیئر توانائی کے بارے میں واقفیت پیدا ہوئی ہے اور اس کے فوائد اور خطرات کے بارے میں انٹرنیٹ پر بحث شروع ہو گئی ہے۔

جاپان کی طرح چین میں بھی زلزلوں کا خطرہ موجود ہے اور بعض چینیوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ زلزلے سے نیوکلیئر تنصیبات تباہ ہو سکتی ہیں۔ بعض دوسرے لوگوں نے مایوسی کا اظہار کیا کہ یورپ کے بعض لیڈروں کے برعکس چینی لیڈر نیوکلیئر طاقت کے استعمال کی پالیسی پر نظر ثانی نہیں کر رہے ہیں۔