رسائی کے لنکس

شن جانگ میں سخت سیکیورٹی اقدامات منفی پیغام دے سکتے ہیں: گلوبل ٹائمز


شن جانگ میں سخت سیکیورٹی اقدامات منفی پیغام دے سکتے ہیں: گلوبل ٹائمز
شن جانگ میں سخت سیکیورٹی اقدامات منفی پیغام دے سکتے ہیں: گلوبل ٹائمز

چین کا سرکاری میڈیا اب اس بارے میں سوال اٹھا رہاہے کہ آیا مغربی شن جانگ میں دوسال قبل یغور نسل کے باشندوں کے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے سیکیورٹی فورسز نے تجاوز تو نہیں کیا تھا۔ ان ہنگاموں میں تقریباً دو سو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

منگل کے روز شن جانگ کے ہنگاموں کی دوسری برسی کے موقع پر کمیونسٹ پارٹی کے اخبار گلوبل ٹائمز نے قانون کے ایک پروفیسر کا حوالہ دیا جن کا کہناتھا کہ استحکام کی خاطر ضرورت سے زیادہ اقدامات کے نتیجے میں کشیدگی کو مزید ہوا مل سکتی ہے۔

اخبار کے مضمون میں کہا گیا ہے کہ صوبائی دارلحکومت ارمچی میں زندگی زیادہ تر معمول پر آچکی ہے لیکن وہاں حکام نے علاقے کی سیکیورٹی کا بجٹ دگنا کردیا ہے اور لگ بھگ 40 ہزار سیکیورٹی کیمرے نصب کیے گئے ہیں۔

لندن میں قائم انسانی حقوق کے ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس برسی کے موقع پر ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں چین پر الزام لگایا گیا ہے کہ حکومت ان ناقدین کی زبان بند کرانے کی کارروائیاں کیں جنہوں نے شن جانگ کے ہنگاموں کے دوران اور بعد میں حکومتی زیادتیوں پر تنقید کی تھی۔

رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ نسلی گروپ یغور کی ویب سائٹس کے منتظمین کو اس بنا پر جیل بھیجا جاچکاہے کہ انہوں نے غیرملکی میڈیا سے یہ کہاتھاکہ یغور اپنے ہی وطن میں اقلیت بن کر رہ گئے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم کا کہناہے کہ ان مظاہروں کے بعد سینکڑوں لوگوں پر مقدمے چلائے گئے ۔ یہ ہنگامے ایک فیکٹری میں یغور مزوروں کی ہلاکت کے خلاف پانچ جولائی 2009ء کو ارمچی میں ایک مظاہرے کے بعد شروع ہوئے تھے ۔ ان مقدمات کے نتیجے میں تقریباً دو درجن افراد کو موت کی سزائیں دی گئی ہے، جن میں سے کئی ایک پر عمل درآمد کیا جاچکاہے، جب کہ دوسرے کئی افراد کو طویل مدت کے لیے جیلوں میں بھیج دیا گیا ہے۔

پیکنگ یونیورسٹی کے پروفیسر ہی وی فنگ کا کہناہے کہ شن جانگ جیسے پیچیدہ علاقے میں حکام کی جانب سے استحکام کو زیادہ اہمیت دینا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن اس سلسلے میں حکومت کے بہت آگے نکل جانے سے غلط پیغام مل سکتا ہے اور اس کا ردعمل ظاہر ہوسکتا ہے۔ اور اس واقعہ میں ہان اور یغور باشندوں کے درمیان تناؤ بڑھ سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG