بھارت میں اپوزیشن جماعت کانگریس کے سینئر رہنما اور رکنِ پارلیمنٹ ششی تھرور اور چھ سینئر صحافیوں کے خلاف پانچ ریاستوں میں غداری کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ان افراد پر رواں ماہ کسانوں کی لال قلعے پر چڑھائی کے دوران 'گمراہ کن' ٹوئٹس کرنے کا الزام ہے۔
صحافیوں کی متعدد تنظیموں نے پولیس کی ان کارروائیوں پر سخت احتجاج کیا ہے اور موجودہ ملکی حالات کو مبینہ طور پر غیر اعلانیہ ایمرجنسی سے تعبیر کیا ہے۔
جن صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ان میں راج دیپ سر دیسائی، مرنال پانڈے، ظفر آغا، پریش ناتھ، آننت ناتھ اور ونود کے جوزے جیسے نام ور صحافی شامل ہیں۔
راج دیپ سر دیسائی بھارت کے نشریاتی ادارے 'انڈیا ٹوڈے' سے وابستہ ہیں۔ مرنال پانڈے کانگریس کے اخبار 'نیشنل ہیرالڈ' اور ظفر آغا کانگریس کی اردو ویب سائٹ 'قومی آواز' کے گروپ ایڈیٹر ہیں۔
دہلی پولیس نے ہفتے کو ان افراد کے خلاف مقدمات درج کیے جب کہ اس سے قبل جمعے کو گوڑ گاؤں (ہریانہ) بنگلور (کرناٹک) اور جمعرات کو نوئڈا (اترپردیش) کی پولیس نے بھی اسی نوعیت کے مقدمات درج کیے ہیں۔
ایسی ہی رپورٹس ریاست مدھیہ پردیش کے مختلف اضلاع میں بھی درج کی گئی ہیں۔
ان مقدمات میں غداری، مجرمانہ اقدام، مجرمانہ سازش، عوام کے درمیان دشمنی و منافرت بڑھانے، نقضِ امن اور مذہبی جذبات بھڑکانے سمیت کئی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پریس کلب آف انڈیا، ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا، دہلی یونین آف جرنلسٹ اور انڈین جرنلسٹ آف یونین نے ہفتے کو نئی دہلی میں ایک مشترکہ احتجاجی اجلاس کیا جس میں پولیس کی ان کارروائیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔
‘پریس کلب آف انڈیا’ کے صدر اور سینئر صحافی آنند کے سہائے نے الزام عائد کیا ہے کہ موجودہ حکومت کو جمہوریت کے نظریے کی قطعاً پروا نہیں ہے۔ ان کے بقول ہلکی سے ہلکی تنقید پر بھی لوگوں کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔
آنند کے سہائے کا مزید کہنا تھا کہ آج ملک کا ماحول بہت زہریلا ہو گیا ہے اور اگر کوئی کسی مسئلے پر عدالت جانا چاہے تو شاید وہ احمق ہے۔ یہاں تک کہ ایمرجنسی کے زمانے میں بھی صحافیوں کے خلاف قوانین اتنے سخت نہیں تھے۔ ان کے بقول انہیں یاد نہیں آتا کہ کوئی صحافی غداری کے الزام میں جیل گیا ہو۔
انہوں نے اس حوالے سے کئی صحافیوں کا ذکر کیا جن کے خلاف حالیہ دنوں میں کارروائیاں ہوئی ہیں اور انہیں جیلوں میں ڈالا گیا ہے۔ جن میں صدیق کپن (کیرالہ)، کشور چندر، وانگ کھیم (منی پور)، دھوَل پٹیل (گجرات)، راہول کلکرنی (مہاراشٹر) اور ونود دُوا (نئی دہلی) شامل ہیں۔
یاد رہے کہ صدیق کپن کو اترپردیش میں ایک دلت خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی اور ہلاکت کے معاملے میں پیشہ ورانہ فریضہ انجام دینے کے لیے ہاتھرس جاتے ہوئے تین اور لوگوں کے ساتھ گرفتار کر لیا گیا تھا۔
دہلی پولیس نے بی جے پی کے ترجمان نوین کمار کی شکایت پر چھ جنوری کو سینئر صحافی ونود دُوا کے خلاف ایف آئی آر درج کی۔ ان کے خلاف کی جانے والی شکایت میں کہا گیا ہے کہ وہ یو ٹیوب چینل پر پیش کیے جانے والے اپنے پروگرام "ونود دُوا شو" کے ذریعے فیک نیوز پھیلا رہے ہیں۔
اس سے قبل ہماچل پردیش میں ایک بی جے پی رہنما کی شکایت پر ان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔
SEE ALSO: نئی دہلی: مظاہرین نے لال قلعے پر 'نشان صاحب' لہرا دیا، جھڑپوں میں ایک ہلاکتانہوں نے اس کارروائی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی اور اس پر سماعت کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ حکومت پر تنقید اس وقت تک غداری نہیں ہے جب تک کہ اس کی وجہ سے تشدد نہ پھوٹ پڑے۔
دہلی یونین آف جرنلسٹ کے صدر ایس کے پانڈے نے کہا کہ آج ایسا لگتا ہے کہ ملک میں غیر اعلانیہ ایمرجنسی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ایمرجنسی سے بھی بدتر حالات کی طرف جا رہے ہیں۔ ان کے بقول اگر آپ حکومت کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو آپ کو ہدف بنایا جائے گا۔
ایس کے پانڈے نے الزام عائد کیا کہ آج صحافی ہوں، کسان ہوں، ٹریڈ یونین کے لوگ ہوں، قلم کار ہوں یا دانش ور ہوں سب کی زبانیں بند کر دی گئی ہیں۔ سب کے منہ پر لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا ہے۔
'ایڈیٹرز گلڈ' کی صدر سیما مصطفیٰ نے کہا کہ صحافیوں کے خلاف حکومت کے اقدامات انہیں دھمکانے اور ہراساں کرنے جیسے ہیں۔
انڈین جرنلسٹ یونین کے ایس این سنہا نے کان پور اتر پردیش کے صحافیوں کی جانب سے یوگا تقریب کی رپورٹنگ پر کی جانے والی کارروائیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ صحافیوں کا کام بدعنوانیوں کی رپورٹنگ کرنا ہے، نہ کہ حکومت کی ہاں میں ہاں ملانا۔
یاد رہے کہ 24 جنوری کو کان پور میں ریاستی حکومت کے ایک پروگرام میں اسکول کے بچوں کو یخ بستہ سردی میں کم کپڑوں میں یوگا کرانے کے واقعے پر تنقید کرنے کی وجہ سے ایک مقامی نیوز چینل کے صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔
ایس این سنہا نے کہا کہ آج صحافیوں کا فریضہ حکومت کی تعریف کرنا ہو گیا ہے اور اگر آپ کسی سچے واقعہ کی رپورٹنگ سے حکومت پر نکتہ چینی کریں گے تو آپ کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔
راج دیپ سردیسائی نے، جن کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے کہا کہ اختلافِ رائے کے باوجود صحافی برادری کو حکومت کی جانب سے سنگین مجرمانہ دفعات کے تحت درج کیے جانے والے مقدمات کے خلاف متحد ہونا اور ایک پلیٹ فارم پر آ جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ "وقت آگیا ہے کہ ہم صحافیوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کریں۔ صحافیوں کے خلاف غداری کے مقدمات ناقابلِ قبول ہیں۔"
پریس کلب آف انڈیا اور دہلی یونین آف جرنلسٹ نے بھی علیحدہ علیحدہ بیانات جاری کرکے ان کارروائیوں کی مذمت کی ہے۔
نشریاتی ادارے ‘انڈیا ٹوڈے’ نے راج دیپ سردیسائی کی ٹوئٹ پر کارروائی کرتے ہوئے دو ہفتوں کے لیے ان کے پروگرام پر پابندی لگا دی ہے اور ان کی ایک ماہ کی تنخواہ کاٹ لی ہے۔
راج دیپ نے کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کے دوران ایک کسان کی موت پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک 45 سالہ شخص کی مبینہ طور پر پولیس کی فائرنگ میں موت ہو گئی ہے۔ کسانوں نے انہیں بتایا ہے۔ یہ قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔
دہلی پولیس کی جانب سے ہفتے کو جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ ان افراد نے کسان کی حادثاتی موت کا ذمہ دار پولیس کو ٹھیرانے کی کوشش کی۔
پولیس کے مطابق ان صحافیوں اور کانگریس رہنما ششی تھرور نے اپنی ٹوئٹس کے ذریعے اس کسان کی موت پر گمراہ کن پروپیگنڈے سے لوگوں کو اشتعال دلا کر ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالا گیا۔
ادھر اتوار کو ایک اور واقعے میں پولیس نے سنگھو بارڈر سے رپورٹنگ کرنے والے دو فری لانس صحافیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے پولیس کے ساتھ بد سلوکی کی تھی۔
ان صحافیوں کے نام مندیپ پونیا اور دھرمیندر سنگھ ہیں۔
مندیپ پونیا کارواں میگزین کے لیے بطور فری لانس کام کرتے ہیں جب کہ دھرمیندر سنگھ آن لائن انڈیا کے نام سے اپنا یو ٹیوب چینل چلاتے ہیں۔
مندیپ کو تہاڑ جیل لے جایا گیا ہے جب کہ دھرمیندر کو تحریری یقین دہانی کے بعد چھوڑ دیا گیا۔
کانگریس رہنما راہول گاندھی اور دیگر نے اس گرفتاری کی مذمت کی ہے۔
راہول گاندھی نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ جو لوگ سچ سے ڈرتے ہیں وہ حقیقی صحافیوں کو گرفتار کرتے ہیں۔