بھارت کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے آٹھ ارکان کو معطل کیے جانے کے معاملے پر حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان تناؤ برقرار ہے۔
حکومت نے پارلیمان سے زرعی بل بھی منظور کروا لیے ہیں جب کہ حزبِ اختلاف کی جانب سے مذکورہ بلوں کو کسان مخالف قرار دیا جا رہا ہے۔
زراعت کے شعبے میں اصلاحات کے مقصد سے حکومت کے پیش کیے گئے دو بل لوک سبھا سے منظوری کے بعد جب اتوار کو راجیہ سبھا میں پیش کیے گئے تو حزبِ اختلاف نے ان پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔
لیکن ڈپٹی چیئرپرسن ہری ونش نرائن سنگھ نے مطالبہ مسترد کرتے ہوئے با آواز ووٹںگ سے بلوں کو منظور کرایا جس پر اپوزیشن نے زبردست احتجاج کیا۔
پیر کو جب ایوان کی کارروائی شروع ہوئی تو چیئرمین ایم وینکیا نائیڈو نے حزبِ اختلاف کے ارکان کے رویے کو ناروا اور شرم ناک قرار دیتے ہوئے آٹھ ارکان کو پورے مون سون کے دوران اجلاس کے لیے معطل کر دیا۔ واضح رہے کہ موجودہ اجلاس یکم اکتوبر تک چلے گا۔
حکومت نے حزبِ اختلاف کے رویے کو غیر جمہوری قرار دیا۔ مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے اس واقعے کے بعد ایک پریس کانفرنس کر کے حزبِ اختلاف کو ہدفِ تنقید بنایا۔
مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے الزام عائد کیا کہ ان ارکان نے مائیک توڑ دیا اور اس کا تار نکال دیا۔
ان کے بقول ایک جماعت کے سربراہ نے رول بک پھاڑ دی اور وہ پوڈیم تک پہنچ گئے۔ اگر مارشلز نے ڈپٹی چیئر پرسن کا تحفظ نہ کیا ہوتا تو ان کو جسمانی ضرب بھی لگائی جا سکتی تھی۔
ادھر معطل ارکان نے پہلے تو ایوان سے نکلنے سے انکار کیا مگر شام ہونے کے بعد انہوں نے پارلیمنٹ کے لان پر اس کے داخلی دروازے کے سامنے گاندھی کے مجسمے کے پاس دھرنا دے دیا۔
معطل ارکان پیر کی شام سے منگل کی صبح تک وہیں بیٹھے رہے۔
بھارت کی پارلیمانی تاریخ میں ایسا دھرنا پہلی بار دیا گیا جو پارلیمنٹ کے لان میں رات بھر چلا۔
معطل ارکان میں ترنمول کانگریس کے ڈیرک او برائن، ڈولا سین ،عام آدمی پارٹی کے سنجے سنگھ، کانگریس کے راجیو ساٹو، سید ناصر حسین بپن بورا اور سی پی ایم کے رایلامارم کریم شامل ہیں۔
وی شنکر پرساد کے الزامات پر کانگریس کے ترجمان اور سابق راجیہ سبھا رکن میم افضل نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہوا بھی ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔
ان کے بقول اسمبلیوں میں غصے میں ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں اور ایوان کے چیئرسن مناسب کارروائی کرتے ہیں۔
انہوں نے بلوں کو منظور کیے جانے کے طریقۂ کار کو غیر جمہوری اور پارلیمانی ضابطوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح بل منظور کیے گئے ایسا تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کو اکثریت حاصل ہے اور اس وقت بھی اپوزیشن ارکان اکثریت میں تھے۔ انہوں نے بلوں پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا تھا۔ ایسے مطالبے کو کبھی منع نہیں کیا جاتا بلکہ ووٹنگ کرا دی جاتی ہے۔ لیکن حکومت کے پاس چوںکہ اکثریت نہیں تھی۔ اس کے بل نامنظور ہو جاتے۔ اسی لیے ڈپٹی چیئرپرسن کی مدد سے انہں منظور کرانے کی کوشش کی گئی اور ڈپٹی چیئرپرسن نے صوتی ووٹوں سے بلوں کو منظور کرایا۔
میم افضل نے الزام لگایا کہ اس حکومت کو نہ تو جمہوری ضابطوں اور نہ ہی پارلیمانی ضابطوں کا احترام ہے۔ یہ حکومت من مانی کرتی ہے اور حزبِ اختلاف کی ایک بات بھی سننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
دریں اثنا حزبِ اختلاف کے ارکان نے منگل کے روز راجیہ سبھا سے واک آوٹ کیا اور گاندھی کے مجسمے کے سامنے احتجاج کیا۔
ایوان میں کانگریس کے قائد غلام نبی آزاد نے کہا کہ جب تک حکومت دوسرا بل نہیں لاتی اور ارکان کی معطلی واپس نہیں ہوتی، بائیکاٹ جاری رہے گا۔
نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے صدر اور سینئر رہنما شرد پوار نے اپوزیشن ارکان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے منگل کے روز ایک دن کا برت رکھا۔
راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرپرسن نے منگل کی صبح پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے پر بیٹھے ارکان کے پاس جا کر حزبِ اختلاف کے ارکان کو چائے پلانے کی کوشش کی مگر انہوں نے انہیں کسان مخالف قرار دیتے ہوئے ان کی پیشکش مسترد کر دی۔
اس کے بعد ڈپٹی چیئر پرسن نے ایوان میں حزبِ اختلاف کے ارکان کے رویے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ایک دن کے برت کا اعلان کیا۔
بلوں کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت کی ایک حلیف جماعت اکالی دل کے کوٹے سے وزیر ہرسمرت کور نے بھی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ جب کہ ملک کے مختلف علاقوں میں کسان بھی بلوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں۔