بھارت نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کو باضابطہ طور پر دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے براہِ راست نئی دہلی کے زیرِ انتظام علاقوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب جمّوں و کشمیر اور لداخ کی انفرادی آئینی حیثیت ختم کر دی گئی ہے۔
جمعرات کو بھارت کے دو اعلیٰ سرکاری افسران گریش چندر مرمو اور آر کے ماتھر نے بالترتیب وفاق کے زیرِ انتظام جمّوں و کشمیر اور لداخ کے لیفٹیننٹ گورنروں کے عہدوں پر حلف اٹھایا۔ اس سلسلے میں سرینگر اور لیہہ میں الگ الگ تقریبات کا اہتمام کیا گیا جہاں جمّوں و کشمیر ہائی کورٹ کی چیف جسٹس گیتا متل نے ان سے حلف لیا۔
ریاست کو باضابطہ طور پر تقسیم کرنے کے اقدام کے خلاف کشمیر میں جمعرات کو مکمل ہڑتال کی گئی جس سے معمولات زندگی متاثر رہے۔
یاد رہے کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو آئینِ ہند کی دفعہ 370 کے تحت جمّوں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے وفاق کے زیرِ انتظام علاقے بنانے کا اعلان کیا تھا۔
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے اس اقدام کی بھارتی پارلیمان نے توثیق کی تھی۔ اس سلسلے میں بھارت کے صدر رام ناتھ کووند نے باضابطہ طور پر ایک فرمان بھی جاری کیا تھا۔
مسلمانوں کی اکثریت رکھنے والی وادی کشمیر میں نئی دہلی کے اس اقدام کی وسیع پیمانے پر مزاحمت کی جاتی رہی ہے۔ کشمیر میں 5 اگست سے ہی احتجاجی ہڑتالوں اور مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جب کہ انتظامیہ کی طرف سے عائد پابندیوں کے باعث معمولاتِ زندگی اب تک بحال نہیں ہو سکے ہیں۔
ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے ساتھ ہی بھارتی حکومت نے کشمیر کے مقامی سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاری کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا۔ وادی میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سمیت تمام مواصلاتی سہولیات کو معطل کر دیا گیا تھا جو رواں ماہ جزوی طور پر بحال کی گئی ہیں۔
بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے 300 سے زائد سیاسی رہنما اور کارکن بدستور نظر بند ہیں جن میں سابق وزرائے اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھی شامل ہیں۔
پولیس نے سیکڑوں عام شہریوں کو بھی "حفاظتی اقدامات کے تحت" حراست میں لیا ہوا ہے جن میں سے متعدد نوجوانوں کو سنگ بازی کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
جمّوں و کشمیر کی آئینی خود مختار حیثیت کے خاتمے پر مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کے لوگوں میں غم و غصہ اور اضطراب پایا جاتا ہے جب کہ جمّوں میں، جہاں ہندو بڑی تعداد میں آباد ہیں، لوگ علاقے کے مستقبل کے حوالے سے مختلف خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔
البتہ لداخ میں بودھ مذہب سے تعلق رکھنے والی آبادی اس تبدیلی پر خاصی خوش نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مقامی سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ اس خطے میں زمینیں اور دیگر جائیدادیں خریدنے کا حق صرف اس کے مستقل باشندوں کو ہی حاصل ہونا چاہیے۔ جموں کی بعض سیاسی جماعتوں نے بھی یہی مطالبہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ دفعہ 370 اور اس کی ذیلی دفعہ 35 اے کے تحت جمّوں و کشمیر میں زمینیں اور دیگر جائیدادیں خریدنے، سرکاری نوکریاں اور وظائف حاصل کرنے، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اس کے مستقل باشندوں کو حاصل تھا۔
لیکن ان دفعات کی منسوخی کے بعد نہ صرف ریاست کا اپنا آئین، جھنڈا اور ترانہ ختم ہو گئے ہیں، بلکہ اب بھارتی آئین اور بھارتی پارلیمان کی طرف سے منظور ہونے والے قوانین کا ریاست پر مکمل اور براہِ راست اطلاق ہوگا۔
جمّوں و کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقوں اور لداخ کے ضلع کرگل میں، جہاں شیعہ مسلکی مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے، کی مختلف سیاسی جماعتوں اور مقامی آبادی کی جانب سے اس خدشے کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد علاقے کے آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنا ہے۔ انہیں خدشہ ہے کہ بی جے پی کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کی ایما پر ان کی شناخت چھینی جا رہی ہے۔
دوسری جانب بی جے پی اور آر ایس ایس دونوں اس طرح کے خدشات اور الزامات کو مسترد کر چکی ہیں۔