رسائی کے لنکس

بھارت: احتجاج کرنے والوں پر خالصتان تحریک کا الزام، کئی کسانوں کو نوٹس جاری


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے کئی روز سے جاری کسانوں کے احتجاج کی آڑ میں 'خالصتان تحریک' کو منظم کرنے کے الزام میں درجنوں افراد کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔

بھارتی حکومت کی جانب سے منظور کیے جانے والے متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج 56 روز سے جاری ہے۔

کسانوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے نو ادوار ہو چکے ہیں جو بے نتیجہ رہے۔

اسی اثنا میں ملک کے سرکردہ تحقیقاتی ادارے این آئی اے کی جانب سے احتجاج میں شرکت کرنے والے درجنوں افراد کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔

یہ نوٹس امریکہ میں سرگرم مبینہ خالصتان حامی تنظیم 'سکھ فار جسٹس' کے خلاف درج ایف آئی آر کے سلسلے میں جاری ہوئے ہیں۔

'این آئی اے' نے امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا میں مقیم بعض سکھ رہنماؤں کے خلاف 15 دسمبر کو نئی دہلی میں ایف آئی آر درج کی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ غیر قانونی تنظیم 'سکھ فار جسٹس' اور دیگر خالصتانی و علیحدگی پسند تنظیمیں حکومت کے خلاف عوام کو بغاوت پر اکسانے اور خوف کا ماحول اور لاقانونیت کے مقصد سے کسانوں کے احتجاج میں شامل ہو گئی ہیں۔

این آئی اے کی جانب سے اب تک 40 سے زائد افراد کے نام نوٹس جاری ہو چکے ہیں جس میں کسانوں کے احتجاج میں کی جانے والی فنڈنگ پر بھی سوال اٹھائے گئے ہیں۔

بھارت میں کسان تنظیمیں کئی روز سے احتجاج کر رہی ہیں۔
بھارت میں کسان تنظیمیں کئی روز سے احتجاج کر رہی ہیں۔

تحقیقاتی ادارے نے احتجاج میں حصہ لینے والے 'لوک بھلائی انصاف ویلفیئر سوسائٹی' کے صدر بلدیو سنگھ سرسہ اور ایک فلم آرٹسٹ و سماجی کارکن دیپ سندھوں کے بھائی مندیپ سنگھ کو بھی نوٹس جاری کیا ہے۔

اس کے علاوہ متعدد پنجابی فن کاروں، صحافیوں اور سماجی کارکنوں کو بھی نوٹسز جاری کیے گئے ہیں۔

کسان تنظیموں نے اس پر شدید احتجاج کیا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ حکومت تحریک میں شامل لوگوں کو ہراساں کر رہی ہے۔ وہ احتجاج کو ختم کرانا چاہتی ہے۔

کسانوں کے متحدہ محاذ 'سنیکت کسان مورچہ' کے مطابق 'این آئی اے' نے ان ٹرانسپورٹرز کو بھی نوٹس بھیجا ہے جو اپنی بسوں کے ذریعے کسانوں کو احتجاج کے مقام تک پہنچا رہے ہیں۔ بعض کیبل آپریٹرز کو بھی نوٹسز بھیجے گئے ہیں۔

ان تمام لوگوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ نئی دہلی میں 'این آئی اے' کے ہیڈ کوارٹر میں پیش ہوں جن میں سے بعض افراد 'این آئی اے' کے سامنے پیش ہو چکے ہیں۔ لیکن کسان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ پیش نہیں ہوں گے۔

'آل انڈیا کسان سبھا' کہ جنرل سیکریٹری اتل کمار انجان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کسانوں کی تحریک کو بدنام کرنا چاہتی ہے۔

ان کے مطابق اس تحریک میں معاشرے کے تمام طبقات کے لوگ شامل ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ غلط لوگ بھی آ گئے ہوں لیکن یہ کہنا کہ اس میں خالصتانی تنظیموں کی جانب سے فنڈنگ کی جا رہی ہے بالکل غلط ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'این آئی اے' کا کہنا ہے کہ اس میں خالصتانی، ماؤ نواز اور دوسرے دہشت گرد شامل ہو گئے ہیں۔ لیکن حکومت کیا کر رہی تھی۔ اس نے ایسے عناصر کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی۔ این آئی اے اسی وقت جاگتی ہے جب ملک میں کوئی احتجاج چل رہا ہوتا ہے۔

اتل کما رانجان نے مزید کہا کہ حکومت کچھ بھی کر لے وہ اس تحریک کو توڑ نہیں سکتی۔ جب تک متنازع قوانین واپس نہیں ہو جاتے اس وقت تک تحریک چلتی رہے گی۔

'آل انڈیا کسان مزدور سبھا' کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر آشیش متل کہتے ہیں کہ حکومت سیاسی سازش کے تحت 'این آئی اے' سے نوٹس بھجوا رہی ہے۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ وہ اس تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ اسے توڑ نہیں پائے گی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بہت سے صحافیوں اور فنکاروں کو بھی نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ وہ لوگ تو 'این آئی اے' میں پیش ہو جائیں گے لیکن کسان نہیں جائیں گے۔

ایک اور کسان رہنما منجیت سنگھ کا کہنا ہے کہ حکومت کسانوں کی طاقت کے آگے بے بس ہو چکی ہے۔ اسی لیے وہ 'این آئی اے' کے ذریعے کسانوں کے خلاف کارروائی کرا رہی ہے۔

دریں اثنا سینئر کانگریس رہنما راہول گاندھی نے کسانوں کے مسئلے پر نئی دہلی میں ایک نیوز کانفرنس کی اور کہا کہ اس مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ حکومت تینوں متنازع قوانین واپس لے۔

ادھر سپریم کورٹ کی جانب سے مقرر کردہ کمیٹی نے آج اپنی پہلی میٹنگ کی اور کسانوں سے اپیل کی کہ وہ اس سے بات کریں۔

خیال رہے کہ اس چار رکنی کمیٹی کے ایک رکن پہلے ہی کمیٹی سے الگ ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کسانوں کے مفادات کے خلاف نہیں جا سکتے۔

یاد رہے کہ اس کمیٹی کے تمام ارکان پہلے سے ہی متنازع قوانین کے حق میں بیان دیتے رہے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG