بھارت میں متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج جاری ہے جب کہ مذاکرات کے چھ دور بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے جس کے بعد مظاہروں میں شدت آ رہی ہے۔
کسانوں کے احتجاج میں شریک 30 تنظیموں میں شامل ایک تنظیم کے رہنما کمال پریت سنگھ پنوں نے کہا کہ سینکڑوں کسان اب اپنی ٹریکٹر ٹرالیوں پر نئی دہلی کی طرف مارچ کریں گے۔
پنوں کا مزید کہنا تھا کہ حکومت ان کی تحریک کو دبانا چاہتی ہے لیکن وہ پر امن احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
کسانوں کی جانب سے نئی دہلی کی جانب مارچ کی دھمکی کے بعد حکام نے دارالحکومت کے داخلی راستوں پر سیکیورٹی مزید سخت کر دی ہے اور کئی مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔
رواں سال ستمبر میں بھارت کی حکومت کے منظور کیے گئے قوانین کے خلاف کسان کئی روز سے احتجاج کر رہے ہیں۔
بھارت کے وزیرِ اعظم نریندرا مودی نے نئی اصلاحات کو بھارت میں زرعی شعبے کی بہتری کے لیے سنگِ میل قرار دیا ہے جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے اسے کسانوں کے حقوق پر ڈاکہ قرار دیا۔
مذکورہ بل کے ذریعے زراعت میں نجی شعبے کے کردار کو بڑھایا گیا ہے۔ جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سے کسان اپنی اجناس آزادانہ طور پر کھلی منڈیوں میں فروخت کر سکیں گے۔
کاشت کاروں کا یہ خدشہ تھا کہ اس سے وہ اپنی اجناس کی کم سے کم قیمت حاصل کرنے سے محروم ہو جائیں گے۔ جو وہ سرکاری ہول سیل مراکز میں فروخت کرنے سے حاصل کر لیتے تھے۔
وفاقی حکومت کے ساتھ بطور معاشی مشیر وابستہ رہنے والے کوشیک باسو نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ انہوں نے مذکورہ متنازع قوانین کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ کسانوں کے خلاف ہیں اور ان کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔
باسو کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کا زرعی نظام اصلاحات چاہتا ہے۔ تاہم متنازع زرعی قوانین کسانوں کے بجائے کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنائے گئے ہیں۔
مودی کابینہ میں شامل ایک وزیر نے نئی دہلی میں ہفتے کو ایک تقریب کے دوران معروف صنعت کاروں اور کاروباری حضرات سے اپیل کی کہ وہ نئے زرعی قوانین کے کسانوں کو ہونے والے فوائد سے آگاہ کریں۔