بھارت کی حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور کاشت کار تنظیمیں پارلیمنٹ سے تین متنازع زرعی بلوں کی منظوری کے بعد حکومت کے خلاف صف آرا ہیں۔
کانگریس نے 24 ستمبر اور 300 سے زیادہ کسان تنظیموں سمیت متعدد اپوزیشن جماعتوں نے 25 ستمبر کو بلوں کی منظوری کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
کانگریس ان بلوں کے خلاف دو کروڑ کسانوں کے دستخطوں سے ایک میمورنڈم صدر جمہوریہ اور ریاستی گورنروں کو پیش کرے گی۔
حکومت ان قوانین کی مدد سے زرعی شعبے میں تبدیلی لانے کی خواہش مند ہے۔ جب کہ حزبِ اختلاف کا الزام ہے کہ اس سے زرعی شعبے میں کارپوریٹ گھرانوں کا داخلہ شروع ہو جائے گا جس سے کسانوں کے مفادات متاثر ہوں گے۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ان زرعی اصلاحات کو زراعت کے شعبے کے لیے تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب کسان اپنی پیداوار منڈیوں کے باہر بھی اور من پسند قیمت پر فروخت کر سکیں گے۔
ان کے مطابق اب کسانوں کو مزید مواقع اور مزید متبادل حاصل ہوں گے۔ کاشت کاروں کو اب منڈیوں کے ایجنٹوں سے نجات مل جائے گی۔
ان کے بقول یہ ایجنٹ کسانوں کی کمائی کا بڑا حصہ بٹور لیتے ہیں۔ کسانوں کو ان سے بچانے کے لیے نئے قوانین کا لایا جانا ضروری تھا۔ اب کسان اپنی پیداوار کہیں بھی فروخت کر سکتے ہیں اور انہیں ایجنٹوں کو کمشن بھی نہیں دینا پڑے گا۔
جب کہ حزبِ اختلاف کی جماعتیں ان بلوں کو کسان مخالف اور ان کے لیے موت کا پروانہ قرار دے رہی ہیں۔
حزبِ اختلاف کا الزام ہے کہ حکومت جس طرح بہت سے سرکاری شعبے نجی کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کر رہی ہے، اسی طرح وہ اب زرعی شعبے کو بھی کارپوریٹ گھرانوں کے ہاتھوں بیچنا چاہتی ہے۔
بھارت میں تقریباً 55 برس پرانے 'ایگریکلچر پروڈیوز مارکیٹنگ کمیٹی قانون' کی رو سے کسان اپنی پیداوار کو ملک کی سرکاری منڈیوں میں کمشن ایجنٹوں کے ذریعے فروخت کرتے ہیں۔ اس کا مقصد انہیں بڑے ادارہ جاتی خریداروں کے استحصال سے بچانا ہے۔
حکومت کی دلیل ہے کہ کمشن ایجنٹوں کے کردار کا خاتمہ ہو جانے سے کسانوں اور صارفین دونوں کو فائدہ ہو گا۔
تاہم زرعی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں کیوں کہ جہاں بھی اس طرح کا تجربہ کیا گیا ہے۔ وہاں کسانوں کا ہی نقصان ہوا ہے۔
مذکورہ بلوں میں منڈیوں کے باہر اور نجی طور پر پیداوار فروخت کرنے کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ زرعی پیداوار کی آن لائن خرید و فروخت کے بندوبست کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومتوں کو کسی بھی قسم کا ٹیکس یا فیس عائد کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
نئے قانون کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ قوانین کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے تیار کیے گئے ہیں۔
وہ یہ اندیشہ ظاہر کرتے ہیں کہ رفتہ رفتہ حکومت کی مقررکردہ کم از کم قیمت کا سلسلہ ختم ہو جائے گا اور زرعی شعبہ نجی کمپنیوں کے ہاتھوں میں چلا جائے گا۔
ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان بلوں میں اس جملے کا اضافہ کرے کہ ایم ایس پی ختم نہیں ہو گی۔ منڈیاں ختم نہیں ہوں گی اور نجی خریدار ایم ایس پی سے کم پر پیداوار نہیں خریدیں گے۔
'آل انڈیا کسان سبھا' کے جنرل سیکرٹری اتل کمار انجان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کسان منڈیوں اور ان کی زمینوں کو نجی کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کرنا چاہتی ہے۔
ان کے مطابق ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ حکومت کہہ دے کہ ایم ایس پی نہیں ختم ہو گی۔ منڈیاں نہیں ختم ہوں گی۔ ہم لوگوں نے بہت جدوجہد کے بعد منڈیاں بنوائی ہیں۔ اس وقت ملک میں 67000 کسان منڈیاں ہیں جن کے پاس تقریباً پونے تین لاکھ ایکڑ زمین ہے۔
انجان نے مزید کہا کہ ان زمینوں کی قیمت اب بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ حکومت ان منڈیوں اور زمینوں کو صنعتی گھرانوں کو بیچ دینا چاہتی ہے۔ ہم یہ قطعاً نہیں ہونے دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے ملک کی بندرگاہوں کو پرائیویٹ ہاتھوں میں دے دیا۔ ریلوے کو نجی کمپنیوں کو دیا جا رہا ہے۔ ایئر پورٹس بیچے جا رہے ہیں۔ اسی طرح اب کسانوں کی زمین پر بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اتل کمار انجان کہتے ہیں کہ مرکز کی مودی حکومت کسانوں کو مسلسل دھوکہ دے رہی ہے۔ اس نے عوام کو سچائی بتائے بغیر جھوٹ اور فریب کا سہارا لیتے ہوئے کسان مخالف بل منظور کرا لیے ہیں۔
انجان کا کہنا ہے کہ حکومت کسانوں کی آمدنی کو دگنا کرنے کے نام پر بھی دھوکے دے رہی ہے۔ کیوں کہ اب کسانوں کی پیداوار منڈیوں میں فروخت ہونے کی بجائے اونے پونے داموں پر بڑے کاروباری خرید لیں گے۔
'کسان مزدور سنگھرش سمیتی' کے رہنما سورن سنگھ پنڈھیر ان کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم مودی کسانوں کو اجاڑنے کا پیکج لے کر آئے ہیں۔
ان کے بقول اس قانون کے بعد ہمارے کھیت چلے جائیں گے۔ کیوں کہ حکومت نے ٹھیکہ کھیتی بل بھی منظور کیا ہے۔ اب کارپوریٹ گھرانوں کا زرعی شعبے میں داخلہ کھل گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں زرعی شعبے اور کھیت کھلیانوں پر کارپوریٹ کا قبضہ ہو جائے گا۔
یاد رہے کہ ایم ایس پی کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے اور انہیں سبسڈی فراہم کرنے کے لیے بنائی گئی ایک پرانی اسکیم ہے۔ کسانوں کو خدشہ ہے کہ حکومت کسی بھی وقت یہ اسکیم ختم کر سکتی ہے۔
ادھر حکومت اس بات کا اعادہ کر رہی ہے کہ ایم ایس پی ختم نہیں ہو گی۔ حکومت کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے پر عزم ہے اور اپوزیشن جماعتوں کی سیاست بے نقاب ہو جائے گی۔