رسائی کے لنکس

بھارت میں کسانوں کا ملک گیر احتجاج، کئی ریاستوں میں نظامِ زندگی متاثر


بھارتی حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے متنازع زرعی قوانین کے خلاف بھارت کی مختلف ریاستوں میں کسانوں کا احتجاج جاری ہے جب کہ کئی اپوزیشن جماعتیں بھی اس احتجاج کی حمایت کر رہی ہیں۔

بھارت کی جن ریاستوں میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی حکومت ہے وہاں ہڑتال کے باعث معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہیں جب کہ مبصرین نے حکومت کی زیرِ اثر ریاستوں میں احتجاج کم زور قرار دیا ہے۔

کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ستمبر میں منظور کیے گئے زرعی قوانین فوری طور پر واپس لیے جائیں۔

کسانوں کا کہنا ہے کہ ان قوانین کے تحت فصلوں کی خریداری کے لیے ملک بھر میں قائم 7000 منڈیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے باعث اُنہیں اپنی فصلوں کی معقول قیمت نہیں مل سکے گی۔

کسانوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ حکومت فصلوں کی کم سے کم قیمت مقرر کرنے کا سلسلہ جاری رکھے بلکہ اسے قانونی درجہ دیا جائے۔ کیوں کہ اس سے کاشت کاروں کو اپنی فصلوں کا بہتر معاوضہ مل سکتا ہے۔

کسان یہ بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ کاشت کاری کے لیے بجلی کی کمرشل قیمت مقرر کرنے کے بجائے جو فلیٹ ریٹ پہلے سے متعین ہیں اسے ہی برقرار رکھا جائے۔

یاد رہے کہ بھارت میں کسانوں کو فلیٹ ریٹ پر کم قیمت پر بجلی فراہم کی جاتی ہے۔

بھارت: زرعی بلوں کے خلاف اپوزیشن اور کسان سڑکوں پر
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:25 0:00

کسانوں کا الزام ہے کہ حکومت نے جو قوانین بنائے ہیں وہ صنعت کاروں اور کمپنیوں کے مفاد میں اور کسانوں کے خلاف ہیں۔

لیکن حکومت یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے مفاد کو ذہن میں رکھ کر بنائے گئے ہیں اور ان کے نفاذ سے کسانوں کو منڈیوں میں 'مڈل مین' سے نجات مل جائے گی۔

حکومت کا مؤقف ہے کہ مذکورہ قوانین ان چھوٹے کسانوں کی مدد کے لیے بنائے گئے ہیں جو اپنی پیداوار کے لیے نہ تو سودے بازی کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی پیداوار کو بہتر بنانے کے لیے ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔

ان قوانین کے تحت کسان اپنی پیداوار کو منڈیوں کے باہر بھی ان لوگوں کو فروخت کر سکیں گے جو انہیں خریدنا چاہیں۔ وہ پرائیویٹ کمپنیوں سے بھی معاہدہ کر سکیں گے۔ اسے کنٹریکٹ فارمنگ کہتے ہیں۔

ان قوانین کے تحت کسان زرعی تاجروں یا نجی کمپنیوں کو مارکیٹ قیمتوں پر اپنی پیداوار فروخت کر سکیں گے۔ زیادہ تر کسان اپنی پیداوار حکومت کے زیرِ انتظام تھوک منڈیوں میں مقرر کردہ قیمت کے تحت فروخت کرتے رہے ہیں۔

کسانوں کو اندیشہ ہے کہ ان قوانین کے نفاذ سے 'ایم ایس پی' یعنی اجناس کی کم سے کم قیمت مقرر نہیں ہو سکے گی اور کاروباری ادارے ہی اجناس کی قیمتیں مقرر کریں گے۔ لہذٰا اُنہیں اپنی فصلوں کی کم قیمت ملے گی۔

بھارت بھر میں ہڑتال کا سب سے زیادہ اثر پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش میں دیکھا گیا۔ ان ریاستوں میں ہزاروں کسانوں نے اہم شاہراہیں اور سڑکیں بند کر دیں۔ بازار، دکانیں اور تجارتی ادارے بھی مکمل طور پر بند رہے۔

متعدد ریاستوں میں نقل و حمل پر برا اثر پڑا۔ دارالحکومت دہلی میں بھی ہڑتال کا اثر نظر آیا۔ متعدد علاقوں میں بازار بند رہے اور ٹریفک کا نظام بھی متاثر رہا۔

دہلی کے داخلی راستے اب بھی بند رکھے گئے ہیں۔

مغربی بنگال، بہار، اڑیسہ اور مہاراشٹر میں کسانوں اور سیاسی کارکنوں نے ریل کی پٹریوں پر قبضہ کر لیا۔ محکمہ ریلوے نے پہلے ہی متعدد ٹریوں کی منسوخی یا ان کے روٹ بدلنے کا اعلان کیا تھا۔

جے پور میں کانگریس اور بی جے پی کے کارکنوں کے درمیان تصادم ہوا۔ تاہم کسی کے زخمی ہونے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔

گورکھپور، چندولی، بستی، سون بھدر، اٹاوہ اور دیگر اضلاع میں پولیس اور سماج وادی پارٹی کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ بستی میں پولیس نے مبینہ طور پر لاٹھی چارج کرکے مظاہرین کو منتشر کیا۔

وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال گھر میں نظربند

دہلی میں عام آدمی پارٹی نے الزام لگایا کہ پولیس نے مرکزی حکومت کے اشارے پر وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال کو ان کے گھر میں نظربند کر دیا۔ پولیس نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔

دریں اثنا وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ایک بیان میں کہا کہ اصلاحات کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ اُن کے بقول گزشتہ صدی کے قوانین کے سہارے اگلی صدی میں ترقی نہیں کی جا سکتی۔

وزیرِ زراعت نریندر سنگھ تومر نے ایک بار پھر نئے قوانین کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے کسانوں کے مفاد میں مذکورہ قوانین بنائے ہیں۔

انہوں نے کسانوں کو یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کی کہ منڈیاں ختم نہیں کی جائیں گی اور اجناس کے کم سے کم قیمت بھی سرکاری مقرر کرے گی۔

مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر نے کہا ہے کہ حکومت پرامن انداز میں اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکال لے گی۔

'حکومت مذکورہ قوانین واپس لینے کے لیے تیار نہیں'

لیکن کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کی سینٹرل کمیٹی کے رکن اور تجزیہ کار جوگیندر شرما نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت مذکورہ قوانین کو واپس لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

ان کے مطابق حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ کسانوں کے مطالبات تسلیم نہیں کرے گی۔ اس کا رویہ ایک طرح سے عوام کے خلاف اعلانِ جنگ ہے اور عوام اس کا جواب دیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت کسانوں کے مطالبات تسلیم نہیں کرتی ہے تو ابھی اس احتجاج کا مرکز دہلی کے بارڈرز ہیں، آگے چل کر پورا ملک احتجاج کا مرکز بن جائے گا۔

خیال رہے کہ سی پی آئی کسان تحریک کی حمایت کر رہی ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG