بھارت کے یومِ جمہوریہ پر دارالحکومت نئی دہلی میں منگل کو ہنگامہ آرائی کرنے والے ہزاروں کسان واپس اپنے دھرنے کے مقامات پر پہنچ گئے ہیں۔
کسان حکومت کی جانب سے منظور کردہ زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے منگل کو ریلی کی شکل میں 10 ہزار سے زائد ٹریکٹروں پر سوار ہو کر نئی دہلی کی جانب مارچ کیا۔
مظاہرین سڑکوں پر رکھی گئی رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے دارالحکومت کی سڑکوں پر گشت کرنے لگے جب کہ بعض مشتعل مظاہرین تاریخی مقام لال قلعہ میں داخل ہو گئے اور عمارت پر کسان تنظیموں کا پرچم اور سکھوں کا مذہبی پرچم 'نشان صاحب' لہرا دیا۔
نئی دہلی سے وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم کے مطابق بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک سکھ گلوکار دیپ سندھو نے کسانوں کو لال قلعے تک جانے کے لیے اکسایا تھا۔ اسی نے لال قلعے پر سکھ مذہب کا پرچم 'نشان صاحب' لہرایا۔ اس نے جھنڈا لہرانے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
سندھو نے 2019 کے پارلیمانی انتخاب میں بالی وڈ اداکار سنی دیول کے لیے پنجاب سے انتخابی مہم چلائی تھی۔ سنی دیول بی جے پی کے امیدوار تھے۔ وہ بی جے پی کے ایم پی ہیں۔
دیپ سندھو کے کسانوں کے احتجاج میں شامل ہونے کی وجہ سے سنی دیول نے خود کو سندھو سے الگ کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سندھو اب ان کے ساتھ نہیں ہے۔
سندھو نے اپنے فیس بک پیج پر ایک ویڈیو جاری کرکے لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کا دفاع کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے لال قلعے پر لہرانے والے بھارت کا قومی پرچم نہیں ہٹایا۔ انہوں نے علامتی طور پر سکھ مذہب کا جھنڈا 'نشان صاحب' لہرایا۔ نشان صاحب سکھ مذہب کا پرچم ہے اور تمام گردواروں پر یہی جھنڈا لہرایا جاتا ہے۔
دوسرے کسان رہنماوں کے ساتھ ساتھ دیپ سندھو کو بھی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی جانب سے نوٹس جاری کیا گیا ہے۔
کسانوں کی ایک تنظیم 'سوراج ابھیان' کے صدر اور کسان رہنما یوگیندر یادو کا کہنا ہے کہ سندھو کو کسانوں کے دھرنے میں شامل ہونے سے شروع میں ہی روک دیا گیا تھا۔
دہلی پولیس نے 'یومِ جمہوریہ' پر کسانوں کی ٹریکٹر ریلی میں پُر تشدد واقعات کے سلسلے میں 22 مقدمات درج کیے ہیں۔ تاہم ابھی تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق پُر تشدد واقعات کی سازش کی بھی ایک رپورٹ درج کی گئی ہے۔ دوسری جانب لال قلعے پر سیکیورٹی کے انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے تصادم کے دوران 300 اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
کسان تنظیموں نے تشدد آمیز واقعات سے خود کو الگ کر لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تشدد سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ کسانوں کی 40 تنظیموں کے اتحاد کا کہنا ہے کہ تشدد سے ان لوگوں کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی شناخت کر رہی ہے جو تشدد آمیز واقعات میں ملوث تھے۔
کسان تنظیموں کے اتحاد سمیوکت کسان مورچہ (متحدہ کسان فرنٹ) کے رہنماؤں نے ٹریکٹر ریلی میں شامل افراد کو مرکزی شہر سے واپس باہر نکلنے کی اپیل کی جس کے بعد نئی دہلی کی بیشتر سڑکیں منگل کی شب ہی ٹریفک کے لیے کھول دی گئی تھیں۔
نئی دہلی کے پولیس افسر انتو الفونز نے بدھ کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ مظاہرین نے دارالحکومت کی سڑکیں خالی کر دی ہیں جس کے بعد صورتِ حال اب معمول پر آ چکی ہے۔
نئی دہلی پولیس کے مطابق کسانوں نے طے شدہ روٹ کے بجائے نئی دہلی پر دھاوا بولا جس کے دوران آٹھ بسوں اور 17 دیگر گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف چار مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔
یاد رہے کہ بھارت میں زرعی قوانین کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے کسان سراپا احتجاج ہیں اور انہوں نے مطالبات کی منظوری کے لیے انتظامیہ کی اجازت کے بعد منگل کو ٹریکٹر ریلی نکالی۔
اس موقع پر پولیس نے مظاہرین کو مجوزہ روٹ سے ہٹ کر دالحکومت کی جانب بڑھنے سے روکنے کے لیے لاٹھی چارچ اور آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی۔ تاہم اہلکاروں اور مظاہرین کے درمیان مختلف مقامات پر تصادم کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور 80 سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
مظاہرین کی نمائندہ تنظیم نے الزام عائد کیا ہے کہ دو بیرونی گروہوں نے ان کے پرامن مارچ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔
مظاہرین کی رہنمائی کرنے والے یوگیندرا یادیو کا کہنا ہے کہ "ہم اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔"
یادیو کا کہنا ہے کہ کسانوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ حکومت دو ماہ سے احتجاج کرنے والے کسانوں کے مطالبات کو سنجیدہ نہیں لے رہی۔ اگر انہوں نے دوبارہ احتجاج کیا تو حکومت صورتِ حال کو کس طرح قابو کرے گی۔
یاد رہے کہ کسانوں کی جانب سے یکم فروری کو بھی احتجاج کی تیاری کی جا رہی ہے۔ یہ احتجاج اس وقت ہو گا جب نریندر مودی حکومت پارلیمنٹ میں سالانہ بجٹ پیش کرے گی۔
کسانوں کے احتجاج کے باعث نئی دہلی انتظامیہ نے منگل کو بعض میٹرو اسٹیشنز سمیت موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس بند کر دی تھی۔
کسانوں کے احتجاج میں شامل اکثریت سکھوں کی ہے جن کا تعلق پنجاب اور ہریانہ کی ریاستوں سے ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں بھی کسانوں نے نئی دہلی کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کی تھی تاہم اس وقت پولیس نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔
بعدازاں کسانوں نے نئی دہلی کے اطراف مختلف مقامات پر دھرنا دے دیا تھا اور گزشتہ دو ماہ سے کسان دھرنا دیے بیٹھے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ زرعی قوانین کو فوری طور پر واپس لیا جائے۔
دوسری جانب حکومت کا مؤقف ہے کہ ستمبر میں پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے زرعی قوانین کسانوں کی بہبود کے لیے ہیں اور نجی سرمایہ کاری کے ذریعے زراعت کی پیداوار کو فروغ ملے گا۔
کسانوں کو خدشہ ہے کہ زرعی قوانین کی وجہ سے زراعت کا شعبہ کارپوریٹ بن جائے گا اور انہیں تنہا چھوڑ دیا جائے گا۔
کسانوں کے شدید احتجاج کو دیکھتے ہوئے حکومت زرعی قوانین کو 18 ماہ کے لیے مؤخر کرنے کی پیش کش کر چکی ہے تاہم مظاہرین اس کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔