ایران پر ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر پابندی کی قرارداد کی توثیق نہ ہونے پر امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل پر تنقید کی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی کونسل دُنیا میں قیامِ امن یقینی بنانے کی کوششوں میں ناکام ہو گئی۔
جمعے کو جاری کیے گئے اپنے بیان میں مائیک پومپیو نے کہا کہ سیکیورٹی کونسل نے ایران پر عائد اس پابندی میں توسیع کی قرارداد مسترد کر کے اسے اپنے جارحانہ مقاصد پورے کرنے کا موقع دے دیا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ دُنیا میں ریاستی دہشت گردی کو فروغ دینے میں سرِفہرست ایران کو اب روایتی اسلحے کی خرید و فروخت کا موقع مل گیا ہے۔
The @UN Security Council failed today to hold Iran accountable. It enabled the world’s top state sponsor of terrorism to buy and sell deadly weapons and ignored the demands of countries in the Middle East. America will continue to work to correct this mistake.
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) August 14, 2020
خیال رہے کہ جمعے کو امریکی قرارداد پر سیکیورٹی کونسل میں ووٹنگ ہوئی جس میں امریکہ اور ڈومینک ری پبلک نے قرارداد کی حمایت کی جب کہ روس اور چین نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیے۔
سیکیورٹی کونسل کے 11 رُکن ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ قواعد و ضوابط کے مطابق سیکیورٹی کونسل سے قرارداد کی منظوری کے لیے نو رُکن ممالک کی حمایت درکار ہوتی ہے۔
ووٹنگ کے بعد اقوامِ متحدہ میں چین کے مشن کی جانب سے کی گئی ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ووٹنگ نے ثابت کر دیا کہ دھونس کے ذریعے کوئی ایک ملک زبردستی اپنی من مانی نہیں کر سکتا۔
ادھر اقوامِ متحدہ میں ایران کے سفیر نے خبردار کیا ہے کہ ایران سیکیورٹی کونسل کی کسی بھی پابندی کو مسترد کر دے گا اور اس کے پاس کئی آپشنز موجود ہیں۔
ایران پر روایتی ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر پابندی کی مدت رواں سال 18 اکتوبر کو ختم ہو رہی ہے۔ یہ پابندی امریکہ اور ایران کے درمیان 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کے تحت عائد کی گئی تھی۔
امریکہ خبردار کرتا رہا ہے کہ ایران کو اس ضمن میں دی جانے والی کوئی بھی چھوٹ عالمی امن کے لیے نقصان اور عدم استحکام کا باعث بنے گی۔
امریکہ نے کہا تھا کہ اسے ایران پر ہتھیاروں کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کرنے کے لیے اسرائیل سمیت خطے کے دیگر ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔ لہذٰا سیکیورٹی کونسل کو اس پابندی میں توسیع کرنی چاہیے۔
خیال رہے کہ امریکہ 2018 میں ایران کے ساتھ 2015 میں طے پانے والے معاہدے سے دست بردار ہو گیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے یک طرفہ طور پر ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
جمعے کو ایک بیان میں صدر ٹرمپ نے اوباما دور میں طے پانے والے اس معاہدے کو خوفناک قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اوباما نے اس معاہدے کے بدلے تہران کو اربوں ڈالر دیے جس کے جواب میں اُنہیں صرف مشکلات ہی ملیں۔
امریکہ کے اس اقدام پر ایران نے بھی جوہری معاہدے کی بعض شقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنا جوہری پروگرام آگے بڑھانے کا عندیہ دیا تھا۔ ایران نے کہا تھا کہ اس نے یورینیم کی افزودگی کی شرح بھی بڑھا دی ہے، تاہم ایران اپنے جوہری پروگرام کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی تردید کرتا رہا ہے۔