امریکہ کے وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے اس بیان کے بعد کہ چین کے ایران سے گہرے ہوتے ہوئے تعلقات مشرقِ وسطی میں عدم استحکام کا باعث بنیں گے، اس بات پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ بیجنگ کس حد تک تہران سے نئے معاہدہ کے ذریعے دو طرفہ تعاون بڑھائے گا کیوں کہ ایسا کرنے سے امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی مزید بڑھے گی۔
مائیک پومپیو نے نشریاتی ادارے 'فاکس نیوز' کو ایک انٹرویو میں امریکہ کی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چین کے ایران سے تعاون بڑھانے سے مشرقِ وسطی میں عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہوگی۔
ان کے بقول اس سے اسرائیل کو خطرہ در پیش ہوگا۔ ان تعلقات سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو بھی خطرات کا سامنا ہوگا۔
وزیرِ خارجہ نے مشرقِ وسطی کے تین اتحادیوں اور خطے کے دوسرے ممالک کو بیجنگ سے متعلق خبردار کیا ہے۔ چین کا شمار امریکہ کے بڑے حریف ممالک میں ہوتا ہے۔
ایران کے حوالے سے مائیک پومپیو نے کہا کہ ایران دنیا میں ریاستی دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والا سب سے بڑا کردار ہے۔ اسی وجہ سے چین کی ایران سے تجارت کے ساتھ ساتھ ہتھیاروں اور قرضوں کی فراہمی خطے کی صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بنا دے گی۔
خیال رہے کہ امریکہ کے وزیرِ خارجہ مغربی ذرائع ابلاغ کی ان رپورٹس کے تناظر میں بات کر رہے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ چین اور ایران 25 سالہ تجارتی اور عسکری تعاون کے معاہدے کے تحت جامع اسٹریٹجک شراکت داری استوار کریں گے۔
چین اور ایران نے اسے معاہدہ کے لیے بات چیت کا آغاز 2014 میں کیا تھا۔ جامع اسٹریٹجک شراکت داری بیجنگ کا دوسرے ممالک سے اعلیٰ ترین سطح پر تعاون قرار دیا جاتا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں ایرانی حکام نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ معاہدے پر مذاکرات جاری ہیں لیکن تہران نے یہ نہیں بتایا کہ یہ معاہدہ کب طے پائے گا۔
چین اور ایران کے اس معاہدے سے متعلق مزید تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔
دونوں ممالک کئی دہائیوں سے اقتصادی اور عسکری حلیف رہے ہیں۔ چین ایران کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور اس نے 1980 کی دہائی میں تہران کو اسلحہ بھی فراہم کیا تھا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 2010 میں ایران پر دیگر ممالک کو اسلحہ فروخت کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔ لیکن رواں برس اکتوبر میں یہ پابندی ختم ہو جائے گی۔
چین نے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں امریکہ کی اس قرارداد کو سلامتی کونسل میں ویٹو کر دے گا جو اس پابندی کے اطلاق کے وقت میں مزید اضافہ کرنے کی سفارش کرے گی۔
چین نے روس اور ایران کے ہمراہ پہلی سہ فریقی بحری مشقوں میں بھی شرکت کی تھی۔ یہ مشقیں گزشتہ سال دسمبر میں بحرِ ہند اور خلیج عمان میں ہوئی تھیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ چین کے پیش نظر ایران سے معاہدے کے مفادات ہیں۔ معاہدے کا مقصد تہران کو اسلحے کی فراہمی اور ایران کی معیشت میں اربوں ڈالرز ڈالنے کے بدلے ایرانی تیل کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ دیگر رعایتیں حاصل کرنا ہے۔
ایران کی معیشت کو 2018 سے کساد بازاری کا سامنا ہے کیوں کہ اس وقت امریکہ نے ایران پر عائد پابندیوں کو مزید سخت کر دیا تھا تا کہ اس پر دباؤ بڑھایا جائے۔ امریکہ کی پالیسی نے چین سمیت کئی ملکوں کو مجبور کیا کہ وہ ایران سے تیل نہ خریدیں۔ تیل کی فروخت ایران کے لیے آمدنی کا بڑا ذریعہ ہے۔
واشنگٹن میں قائم ہڈسن انسٹیٹیوٹ کے تبصرہ نگاروں مائیکل دوران اور پیٹر رف نے ایک مقامی ویب سائٹ پر مضمون میں لکھا ہے کہ چین کو ایران اور روس کی کارروائیوں کو ہوا دینے سے کئی اہم فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق چین کی پالیسی یہ ہو گی کہ خطے میں سرگرم عمل حلیف قوتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ وہ امریکہ کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کریں اور یوں امریکہ کی ساکھ کو نقصان پہنچے۔
ان مبصرین نے یہ بھی کہا ہے کہ چین کو ایک اور بڑا فائدہ یہ ہو سکتا ہے کہ خطے کے ایسے ممالک جو امریکی عزائم کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں، وہ بیجنگ سے تعلقات بہتر بنانے پر مجبور ہو جائیں گے۔
کچھ اور مبصرین نے وائس آف امریکہ کی فارسی سروس کو بتایا ہے کہ چین کے ایران کی مشرقِ وسطیٰ میں عدم استحکام کی کارروائیوں کو روکنے کے بھی محرکات موجود ہیں۔
بیلجیم کے 'ویسالئیس کالج' میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر گائے برٹن کہتے ہیں کہ چین خطے کا موجودہ 'سٹیٹس کو' برقرار رکھنا چاہے گا، کیونکہ اسی میں اس کا مفاد ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2003 میں عراق پر حملے کے بعد امریکہ کی اس ملک میں عسکری موجودگی نے عراق کو اس حد تک مستحکم کر دیا ہے کہ اب چین کے لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ وہ عراق کی تیل اور گیس کی صنعت کو ترقی دینے کے نام پر پر کشش کنٹریکٹس حاصل کر سکے۔
گائے برٹن کہتے ہیں کہ چین یہ نہیں چاہے گا کہ ایران پر عائد پابندیوں کی جارحانہ خلاف ورزی کر کے وہ واشنگٹن سے اپنے تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا کر لے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ چین ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے تاہم وہ گزشتہ سال سے ایرانی تیل کی درآمد اور ایران میں سرمایہ کاری سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔
ورجینیا میں قائم 'رینڈ کارپوریشن' سے وابستہ سینئر ماہرِ اقتصادیات ہاورڈ شاٹز کہتے ہیں کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ چین ایران کو ایسی شراکت داری پر مجبور نہ کر سکے جس کا بیجنگ خواہاں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ایرانی عوام چین کی اپنے ملک میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری سے مکمل طور پر متفق نہیں ہیں۔
ان کے بقول اس وقت چین ایران کی معیشت کو جاری رکھنے کا ایک موقع فراہم کر رہا ہے لیکن ایران میں بعض افراد کو یہ اندیشہ ہے کہ چین کی ان کے ملک سے زیادہ وابستگی سے ایران کی خطے میں طاقت کم ہو جائے گی۔
چین کے ایران سے گہرے تعلقات استوار کرنے کی راہ میں ایک اور بات یوں بھی حائل ہے کہ چین کے اس وقت امریکی اتحادیوں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل سے بھی قریبی اقتصادی اور عسکری تعلقات ہیں۔
چین کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے جامع اسٹریٹجک شراکت داری پر مبنی تعلقات ہیں۔ یہ دونوں ممالک چین کے لیے تیل کی برآمدات کا ذریعہ ہیں۔ اس کے علاوہ چین ان دو ممالک کو اسلحہ بھی فروخت کرتا ہے۔ چین نے اسرائیل کی اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی میں بھی سرمایہ کاری کی ہے۔
واشنگٹن کے 'عرب گلف اسٹیٹس انسٹیٹیوٹ' سے منسلک ماہر رابرٹ موگیل نکی کہتے ہیں کہ ایسے تعلقات چین کے لیے ایرانی تعلقات کے مقابلے میں زیادہ محفوظ دکھائی دیتے ہیں۔
(یہ مضمون وائس آف امریکہ کی فارسی سروس نے تیار کیا ہے)