جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں حالیہ عرصے میں بہت سی سیاسی تبدیلیاں رُونما ہوئی ہیں۔ بھارت کے چین اور دیگر ہمسائیہ ملکوں سے تعلقات میں سرد مہری کے بعد چین کے ایران کے ساتھ اربوں ڈالر کے اقتصادی معاہدے کے بعد خطے کی سیاست ایک نیا رُخ اختیار کر گئی ہے۔
چند روز قبل پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم حسینہ واجد سے بھی ٹیلی فون پر بات کر کے تعلقات میں بہتری لانے کی پیش کش کی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں چین اپنا اثر و رُسوخ بڑھانے کے علاوہ بھارت کے قریب سمجھے جانے والے ملکوں سے تعلقات کو فروغ دے کر امریکہ کو چیلنج کر رہا ہے۔
حال ہی میں ایران نے بھارت کو چاہ بہار ریل منصوبے سے الگ کر کے چین کے ساتھ 25 سال پر مشتمل 400 ارب ڈالر کے اقتصادی معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔
ایران کی بندرگاہ چاہ بہار سے زاہدان اور افغانستان کی سرحد تک اس ریلوے منصوبے پر 2016 میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی، ایران کے صدر حسن روحانی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے دستخط کیے تھے۔ یہ معاہدہ پاکستان اور چین کے درمیان گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور ترقی کے لیے طے پانے والے معاہدے کے بعد عمل میں آیا تھا۔
عالمی تجارت کی اہم ترین گزرگاہوں - خلیجِ فارس اور بحرِ ہند پر واقع گوادر پورٹ اور چاہ بہار کی بندرگارہ کا آپس میں اکثر موازنہ کیا جاتا ہے۔ ماہرین ان دونوں بندرگاہوں کو بھارت اور چین میں جاری مقابلے کی دوڑ کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
گوادر بندرگاہ کی تکمیل کے بعد اب یہ پاکستان، افغانستان اور چین کی سمندری تجارت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اسے دنیا کی سب سے زیادہ گہری بندرگاہ بھی کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف ایران پر عائد بین الاقوامی پابندیاں چاہ بہار اور اس کو ملانے والے زمینی راستوں کی تعمیر میں حائل رہی ہیں۔
لیکن اب بھارت کی جانب سے اس منصوبے میں تاخیر کے باعث ایران نے بھارت کو اس سے علیحدہ کر دیا ہے۔
اس دوران چین اور ایران نے ایک 25 سالہ اسٹریٹجک معاہدے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت چین ایران میں 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کار ی کرے گا۔ ماہرین کے مطابق یہ دو بڑے اعلانات خطے میں بہت سی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
بھارت کی عدم دلچسبی یا ایران پر پابندیوں کا دباؤ؟
ایران اور بھارت کے تعلقات میں کئی برسوں سے گرمجوشی رہی ہے۔ ایران پر امریکہ کی طرف سے عائد پابندیوں کے باوجود بھارت ایران سے خام تیل برآمد کرتا رہا ہے۔
امریکی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے دوسرے ملکوں سے تجارتی روابط بڑھانا اور اس کے ذریعے زرِ مبادلہ کمانا ایران کی ایک اہم ترجیح رہی ہے۔ اس تناظر میں ماہرین کے مطابق ایران کا بھارت کو چاہ بہار منصوبے سے الگ کرنے کا فیصلہ کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے۔
جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے معاملات پر نظر رکھنے والے ماہر کامران بخاری کہتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب بھارت کے امریکہ سے تعلقات کئی شعبوں میں بڑھ رہے ہیں، نئی دلی کو واشنگٹن کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے کہ وہ ایران سے تعلقات استوار نہ کرے۔
کامران بخاری 'اینالیٹیکل ڈویلپمنٹ سینٹر فار گلوبل پالیسی' کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ خاص طور پر یہ نہیں چاہے گا کہ بھارت ایران سے ان شعبوں میں تعلقات بڑھائے جن مین تعاون سے ایران پر عائد امریکی پابندیوں کے دباؤ میں کمی واقع ہو۔
ماہرین اس بات کو بھی اہمیت دیتے ہیں کہ بھارت کی ایران اور افغانستان میں کم ہوتی ہوئی دلچسبی کا تعلق افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا سے بھی ہو سکتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے اُمور کے ماہر اور مصنف شجاع نواز کہتے ہیں کہ خطے میں بیک وقت کئی تبدیلیاں آ رہی ہیں جن میں امریکہ کی افغانستان پالیسی، چین کا تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کے علاوہ چین، بھارت کشیدگی بھی ہے۔
اُن کے بقول بھارت اور چین کی بڑھتی ہوئی کشیدگی اور بھارت کے نیپال اور بنگلہ دیش سے بگڑتے ہوئے تعلقات بھی خطے کی سیاست کو تبدیل کر رہے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ اس ساری صورتِ حال میں ایک اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ نئی دہلی اس وقت اندرونی طور پر خلفشار کا شکار ہے۔
ان کے بقول ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی تمام تر توجہ اندرونی مسائل پر ہے اور وہ خطے میں تعلقات کی پرواہ کیے بغیر کشمیر اور متنازع شہریت بل جیسے معاملات میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔
ایران، چین معاہدہ اور اس کے ممکنہ اثرات
ایسے حالات میں جب ایران کی عالمی سطح پر تنہائی بڑھتی دکھائی دے رہی تھی، اس کے اور چین کے درمیان طے پانے والے 400 ارب ڈالر کے 25 سالہ معاہدے نے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔
عالمی تعلقات پر نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق اس بڑے منصوبے سے خطے پر دیرپا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیوں کہ خطے کے علاوہ وسیع تر تناظر میں یہ معاہدہ امریکہ اور چین میں جاری تجارتی جنگ کا حصہ بھی ہو سکتا ہے۔
کامران بخاری کے مطابق اس بڑی پیش رفت سے ایران کے زرِ مبادلہ سے متعلق کچھ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
اُن کے بقول چین بھارت سے تو آگے بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے، لیکن چین فی الحال امریکہ کا عالمی سیاست اور سفارت کاری کے اثر و رسوخ کے تناظر میں نعم البدل ثابت نہیں ہو سکتا۔
کامران بخاری کہتے ہیں کہ "ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ چین کبھی امریکہ کی طرح دوسرے ملکوں کو امداد نہیں دیتا بلکہ وہ اپنی کمپنیوں کے ذریعے سرمایہ کاری اور ملکوں کو قرضے دیتا ہے. لہذٰا ایران کو یہ قرضے واپس کرنا ہوں گے جو اس کی معیشت پر دباؤ بڑھانے کا سبب بن سکتے ہیں۔"
شجاع نواز کہتے ہیں کہ چین کے مطابق اس کے ایران سے ترقیاتی معاہدے امریکی پابندیوں سے کہیں پہلے طے پائے تھے، لہذٰا ان پر کسی قسم کی پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔
شجاع نواز کے مطابق چین طویل المدتی خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اُن کے بقول اس کے ایران سے معاہدے کے دو بڑے مقاصد دکھائی دے رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ چین صدر شی جن پنگ کے 'بیلٹ ایند روڈ' منصوبے کو توسیع دینا جس میں ایران کے ذریعے وہ دیگر ممالک سے تجارت کو فروغ دے گا۔
خیال رہے کہ چین 'ون بیلٹ، ون روڈ' منصوبے کو رواں صدی کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ قرار دیتا ہے، جس کے تحت چین دنیا کے 66 ملکوں کو تجارتی سطح پر سڑک اور ریل کے ذریعے جوڑنا چاہتا ہے۔
شجاع نواز کے بقول دوسرا بڑا مقصد یہ نظر آتا ہے کہ چین یہ نہیں چاہے گا کہ مستقبل میں کسی خراب صورتِ حال یا جنگ کی حالت میں بھارت اس کی بحیرۂ ہند میں نقل و حمل میں رکاوٹ بنے اور تجارت میں خلل ڈالے۔ لہذٰا وہ متبادل راستوں کی تلاش جاری رکھے گا۔ ماہرین کے مطابق ایران کے مقابلے میں چین کو ان معاہدوں سے زیادہ فائدہ ہو گا۔
موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
بظاہر ایران کا بھارت کو اپنے ایک اہم منصوبے سے الگ کرنا، چین اور ایران کے درمیان معاہدہ طے پانا اور افغانستان میں امن عمل کے امکانات سے پاکستان کی خارجہ پالیسی بہتر نظر آ رہی ہے۔ لیکن ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات میں کوئی بھی بات حتمی اور مستقل نہیں ہوتی۔
کامران بخاری کہتے ہیں کہ یہ صورتِ حال پاکستان کے لیے کوئی خاص فائدے مند دکھائی نہیں دیتی۔
اُن کے بقول اول تو یہ کہ پاکستان اس وقت مالی اور اقتصادی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ دوسرا یہ کہ بھارت نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کر کے اسلام آباد کو خارجہ پالیسی کے ایک مشکل مسئلے سے دوچار کر رکھا ہے۔
چین اور ایران کے معاہدے سے اور چاہ بہار کی تکمیل سے کیا پاکستان کی خطے میں اہمیت کم ہو جائے گی؟ یہ سوال بھی لوگوں کے ذہن میں ابھر رہا ہے۔
شجاع نواز کہتے ہیں کہ پاکستان کی اپنی اسٹریٹجک اہمیت بدستور برقرار رہے گی کیوں کہ مستقبل میں یہ چین کی بڑی معیشت کے لیے 'چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور' کی صورت میں 'بیلٹ اینڈ روڈ' کا ایک اہم حصہ رہے گا۔
تاہم شجاع نواز کہتے ہیں کہ پاکستان کو اپنی کلیدی جغرافیائی حیثیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی اقتصادی ترقی کی رفتار کو تیز تر کرنا ہو گا۔ خاص طور پر بلوچستان اور سندھ میں ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے لوگوں کو روزگار ملے اور ملک کی برآمدات میں اضافہ بھی ہو سکے۔