رسائی کے لنکس

چاہ بہار منصوبے سے بھارت الگ، امریکی دباؤ یا چین کا اثر و رسوخ؟


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

ایران کی جانب سے بھارت کو چاہ بہار ریل منصوبے سے الگ کرنے پر بھارت میں اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم نریندر مودی پر کڑی تنقید کر رہی ہیں۔

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی پر اب امریکہ کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا جو اس کے مفاد میں نہیں ہے۔

بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے بدھ کو ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ بھارت کی عالمی حکمت عملی ںاکام ہو رہی ہے۔

اُن کے بقول "ہم ہر جگہ عزت اور طاقت کھو رہے ہیں اور بھارت کی حکومت کے پاس کوئی حل نہیں ہے۔"

اس سے قبل کانگریس کے ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی نے اپنی ٹوئٹ میں کہا تھا کہ یہ بھارت کی بڑی ناکامی ہے۔ چین نے خاموشی کے ساتھ ایران کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ انڈیا کی بڑی شکست لیکن آپ سوال نہیں کر سکتے۔

ایران کی بندرگاہ چاہ بہار سے زاہدان اور افغانستان کی سرحد تک اس ریلوے منصوبے پر 2016 میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی، ایران کے صدر حسن روحانی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے دستخط کیے تھے۔

ایران نے بھارت کی جانب سے تاخیر کا عذر پیش کرتے ہوئے ازخود اس منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے۔

نئی دہلی کی ایک انگریزی ویب سائٹ ”دی پرنٹ“ نے ایرانی حکومت کے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ آگے چل کر منصوبے میں بھارت کی شمولیت کے لیے ایران نے اپنے دروازے کھلے رکھے ہیں۔

ادھر بھارتی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ چوں کہ نئی دہلی نے تہران کو یہ اطلاع دی تھی کہ سخت امریکی پابندیاں اس کے کام میں رکاوٹ بن رہی ہیں اس لیے ایران نے یکطرفہ طور پر منصوبے پر کام شروع کیا۔ تاہم حکومت کو اعتماد ہے کہ وہ اس منصوبے کا حصہ بنی رہے گی۔

نئی دہلی کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایران پر امریکی پابندیاں، بھارت اور امریکہ کی قربت جب کہ ایران اور چین کے درمیان طے پانے والا ایک بڑا تجارتی و دفاعی منصوبہ ایران کے اس فیصلے کے محرکات ہو سکتے ہیں۔

خیال رہے ایران نے حال ہی میں چین کے ساتھ 400 ارب ڈالر پر مشتمل 25 سالہ معاشی اور سیکیورٹی شراکت داری کے منصوبے پر اتفاق کیا ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 'سینٹر فار ویسٹ ایشین اسٹڈیز' سے وابستہ پروفیسر رفیع اللہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کے ساتھ بھارت کے تعلقات کو سمجھنے کے لیے امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے ساتھ اس کے رشتوں کو بھی سامنے رکھنا ہو گا۔

اُن کے بقول بھارت کو ان ملکوں کے ساتھ متوازن تعلقات رکھنے ہیں اس لیے ممکن ہے کہ اس نے جان بوجھ کر منصوبے پر کام شروع کرنے میں تاخیر کی ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت اس معاملے میں آگے بڑھتا تو وہ بھی امریکی پابندیوں کا شکار ہو سکتا تھا۔ اس وقت امریکہ اور ایران کے تعلقات بہت زیادہ خراب ہو چکے ہیں۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ بھارت ایران کے ساتھ روابط بڑھائے۔

ایران اور چین کے وزرائے خارجہ (فائل فوٹو)
ایران اور چین کے وزرائے خارجہ (فائل فوٹو)

رفیع اللہ کہتے ہیں کہ امریکہ نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ وہ بھارت پر بھی پابندیاں نافذ کر سکتا ہے۔ اسی لیے بھارت نے ایران سے تیل بھی خریدنا کم کر دیا ہے۔ پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے کہ بھارت امریکی دباؤ پر پیچھے ہٹتا رہا ہے۔

پروفیسر رفیع اللہ کا مزید کہنا ہے کہ اس وقت بھارت امریکہ کے بہت زیادہ قریب ہو گیا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد رفتہ رفتہ بھارت کا جھکاؤ امریکہ کی طرف ہوتا گیا۔

اُن کے بقول امریکہ بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ امریکہ اقوامِ متحدہ میں بھارت کی حمایت کرتا ہے جب کہ امریکہ میں جو اسرائیلی لابی کام کرتی ہے بھارت اس کے بھی قریب ہے۔

ان کے مطابق ایران سے بھارت کے تاریخی رشتے رہے ہیں اسے بھارت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ ایران بھی بھارت کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ ابھی بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ دونوں کے رشتے کمزور ہو رہے ہیں لیکن بہر حال اس سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ بھارت پر امریکہ کا اثر بڑھ گیا ہے۔

ایک اور سینئر تجزیہ کار اور مغربی ایشیا اُمور کے ماہر پروفیسر اے کے پاشا کے خیال میں بھارت معاہدے تو کر لیتا ہے لیکن ان پر عمل درآمد میں تاخیر کرتا ہے لہذٰا ایران کب تک انتظار کرتا۔

ان کے مطابق متعدد وجوہات کے باعث ایران بھارت سے خوش نہیں ہے جن میں امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل سے اس کی بہت زیادہ قربت بھی ایک وجہ ہے۔

اے کے پاشا کہتے ہیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی بھارت کو امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے حلقے میں تیزی سے لے کر جا رہے ہیں۔ بھارت اور ایران میں بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔ دونوں بڑے تجارتی شراکت دار بھی ہیں۔ لیکن بھارت امریکہ کے دباؤ میں آ گیا ہے۔

اُن کے بقول جب امریکہ نے ایران پر پابندیاں عائد کیں تو ایران کو اُمید تھی کہ بھارت اس کا ساتھ دے گا۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ ایسی بہت سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر ایران بھارت سے خوش نہیں ہے۔

پروفیسر پاشا یہ بھی کہتے ہیں کہ بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ شدت پسند ہندوؤں کے سلوک کا معاملہ ایران کے پریس میں چھایا ہوا ہے اور اس پر وہاں کی پارلیمنٹ میں بھی کافی گفتگو ہوئی ہے۔

'بھارت کا چاہ بہار میں سرمایہ کاری کا فیصلہ درست نہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:21 0:00

ان کے خیال میں چین ایران کے لیے بہت پرکشش شراکت دار بن رہا ہے۔ ایک عرصے سے چین کی نظر چاہ بہار پر تھی۔ وہ چاہ بہار اور گوادر کو ایک دوسرے سے ملانا چاہتا ہے۔ چین کی یہ بھی خواہش ہے کہ ایران اور پاکستان ایک دوسرے کے مزید قریب آ جائیں۔

پروفیسر پاشا کہتے ہیں کہ چاہ بہار کا معاملہ تو ایک مثال ہے ورنہ ایسی کئی مثالیں ہیں کہ ایران اور بھارت کے رشتے کمزور ہو رہے ہیں۔ چاہ بہار منصوبے سے بھارت کو الگ کیے جانے سے اس کا کافی نقصان ہوا ہے۔

پروفسیر پاشا کہتے ہیں کہ چین نے ایران کو ایک بڑی پرکشش پیش کش کر کے بھارت کو اس سے الگ کر دیا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کے امریکہ نے افغانستان میں بھارت کو الگ تھلگ کر کے طالبان کے ساتھ امن معاہدہ کر لیا۔

پروفیسر پاشا کا کہنا ہے کہ بھارت کو امریکہ کے دباؤ سے نکلنا چاہیے۔ اب تک اس کی آزاد خارجہ پالیسی تھی لیکن اب اس میں کافی تبدیلی آ گئی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ اس سے قبل بھارت کسی دوسرے ملک سے تعلقات کی استواری میں کسی اور ملک کے ساتھ باہمی رشتوں کو آڑے نہیں آنے دیتا تھا۔ لیکن مودی حکومت میں اس پالیسی میں تبدیلی آ گئی ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے بھارت اور چین کے درمیان جو حالیہ کشیدگی پیدا ہوئی ہے اس نے خطے کی صورت حال پر بھی اثر ڈالا ہے۔ لہٰذا یہ کشیدگی جتنی جلد ختم ہو جائے نہ صرف دونوں ملکوں کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے اتنا ہی مفید ہوگا۔

یورپی یونین نے بھی کہا ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان موجودہ کشیدگی کا ختم ہونا باہمی، علاقائی اور عالمی امن کے لیے ضروری ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG