اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں کشمیر سے متعلق قرارداد لانے میں ناکامی پر پاکستان میں بحث جاری ہے۔ بعض حلقے اسے حکومت کی سفارتی ناکامی قرار دے رہے ہیں تو وہیں مسلمان ممالک کی کشمیر کے معاملے پر خاموشی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
پاکستان کے پاس 19 ستمبر تک یہ مہلت تھی کہ وہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی صورتِ حال سے متعلق ڈرافٹ قرارداد اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں جمع کروا سکتا تھا۔
انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر پر ترجیحی بنیادوں پر بات چیت کی گئی تھی۔ سفارتی حلقوں کے مطابق رکن ممالک کی مطلوبہ تعداد کی حمایت نہ ہونے پر پاکستان قرارداد لانے میں ناکام رہا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق جنیوا میں جاری اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر ایجنڈے پر ہونے کے باوجود پاکستان قرارداد نہیں لا سکا۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کونسل اجلاس میں شرکت کے لیے جنیوا جانے سے پہلے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس اہم فورم پر نہ صرف مسئلے کو اٹھائیں گے بلکہ 'کشمیر قرار داد' پیش کر کے منظور کروائیں گے۔
انسانی حقوق کونسل کے 42 ویں اجلاس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر نہ صرف سرفہرست تھا بلکہ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق میچیل بیچیلیٹ نے اپنے استقبالیہ خطاب میں اس مسئلے کا خاص طور پر تذکرہ بھی کیا تھا۔
اجلاس کے آغاز پر ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق میچیل بیچیلیٹ نے بھارت سے مطالبہ کیا تھا کہ کشمیر میں کرفیو اور پابندیوں کے سلسلے میں نرمی لائی جائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ بھارتی حکومت کے حالیہ اقدامات پر شدید تشویش ہے جس سے کشمیریوں کے انسانی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔
انہوں نے بھارت سے مطالبہ کیا تھا کہ کشمیر میں لاک ڈاؤن اور کرفیو میں نرمی کی جائے تاکہ لوگوں کو بنیادی سہولتیں میسر آ سکیں۔
پاکستان کشمیر پر قرار داد کیوں نہ لا سکا؟
انسانی حقوق کونسل میں مسئلہ کشمیر کو اٹھانے کے لیے پاکستان کے پاس تین طرح کے آپشنز تھے جن میں سرفہرست کشمیر قراداد کو منظور کرانا تھا تاکہ اس کے بعد اس پر بحث کرائی جا سکے یا کونسل کا خصوصی سیشن بلوایا جا سکے۔
کشمیر کی ریاستی خود مختاری ختم کرنے اور ایک ماہ سے زائد عرصہ سے شہریوں کو بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی اور کرفیو جیسی پابندیوں کی صورتِ حال انسانی حقوق کونسل اجلاس کے ایجنڈے میں شامل تھی۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں قرارداد جمع کرانے کے لیے کم سے کم 16 ممالک کی حمایت ضروری ہے لیکن پاکستان اس اجلاس میں قرارداد جمع کرانے کے لیے درکار کم سے کم ممالک کی حمایت کی شرط بھی پوری نہیں کر سکا۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان کو امید تھی کہ اسلامی تعاون تنظیم میں شامل ایک درجن سے زائد ممالک جو انسانی حقوق کونسل کے رکن ہیں، پاکستان کی حمایت کریں گے۔ تاہم پاکستان کو اس میں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔
پاکستان کشمیر کے معاملے پر انسانی حقوق کونسل کا خصوصی اجلاس بلوانے کا بھی خواہش مند تھا تاہم کم سے کم 16 ممالک کے عدم اتفاق کے باعث (مطلوبہ حمایت حاصل نہ کر سکنے کے باعث) اس میں بھی ناکام رہا۔
جنیوا میں رپورٹنگ کرنے والے صحافی یونس خان کہتے ہیں کہ پاکستان کو قرارداد پیش کرنے کے لیے کم سے کم رکن ممالک کی حمایت حاصل نہیں ہو سکی جس کی بڑی وجہ اسلامی ممالک کا ساتھ نہ دینا اور بھارت کی مؤثر سفارت کاری ہے۔
انسانی حقوق کونسل کے 47 رکن ممالک ہیں۔ قرارداد منظور کرانے کے لیے سادہ اکثریت یعنی تمام ممبران کے ایوان میں موجود ہونے پر 24 رکن ممالک کی حمایت درکار تھی۔
ستمبر کے آغاز پر اسلام آباد آئے ہوئے سعودی عرب کے وزیرِ مملکت برائے امور خارجہ عادل الجبیر اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زائد بن سلطان سے ملاقات کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ کشمیر کے معاملے پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس جلد بلانے پر اتفاق ہوا ہے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ پاکستان کو خلیجی ممالک کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ابہام ختم ہو گیا ہے کہ خلیجی ممالک مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ نہیں ہیں۔‘
تاہم کشمیر کے معاملے پر او آئی سی کا خصوصی اجلاس پاکستان اور تنظیم کے صدر ترکی کی خواہش کے باوجود منعقد نہیں کیا جاسکا ہے۔
البتہ پاکستان کو امید ہے کہ اقوام متحدہ کے حالیہ سربراہی اجلاس کے موقع پر آو آئی سی کے کشمیر رابطہ گروپ کا اجلاس بھی منعقد کیا جائے گا۔
'سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھارت کی جانب دیکھ رہے ہیں'
تجزیہ کار ڈاکٹر اے ایچ نیّر کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر پاکستان کی اہمیت نہیں رہی جس کی وجہ کمزور معاشی حالت اور ماضی میں دہشت گردوں کی حمایت ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اے ایچ نیّر نے کہا کہ خارجہ سطح پر اسلام آباد کا انحصار چین اور خلیجی ممالک پر رہا ہے تاہم نئے حالات میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، پاکستان کی بجائے بھارت کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
ڈاکٹر نیّر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان تاحال نریندر مودی کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا مؤثر جواب نہیں دے پایا ہے اور اب انتظار کیا جا رہا ہے کہ کشمیر میں کرفیو اور پابندیاں ہٹیں تو کشمیری نئی دہلی کے اقدامات پر احتجاج کریں۔
کشمیر میں احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی جانب سے ماضی میں بھی بھارت کے اقدامات پر شدید ردعمل آیا ہے اور موجودہ صورت حال میں اگر دوبارہ ایسا ہوتا ہے تو پاکستان کی کشمیر معاملے پر حیثیت مضبوط ہو گی۔
'کشمیر پر قرارداد نہ آنا پاکستان نہیں انسانیت کی ناکامی ہے'
قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین احسان اللہ ٹوانہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے طے کیا تھا کہ مسئلہ کشمیر کو ہر سطح پر اٹھائیں گے اور اسی سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو اہم موقع کے طور پر استعمال کریں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کونسل میں قرارداد نہ آنا یا او آئی سی کا کشمیر پر خصوصی اجلاس نہ بلایا جانا پاکستان کی ناکامی نہیں بلکہ انسانیت اور جمہوریت کی ناکامی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کشمیر کے معاملے پر اصولی اور انسانی بنیادوں پر کھڑا ہے اور ہماری ترجیحات طے ہیں کہ ہم نے آگے کا راستہ کیسے اپنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 70 سال کی خاموشی کے بعد دنیا کشمیر پر پاکستان کی بات سن رہی ہے۔ ان کے بقول سفارتی سطح کے مراحل اپنی جگہ لیکن پاکستان کی کوشش ہے کہ دنیا بھر کے عوام کو کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم سے آگاہ کیا جائے۔
یاد رہے کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر چین کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرہ خصوصی اجلاس منعقد ہوا تھا جسے پاکستان اپنی سفارتی کامیابی گردانتا ہے۔