نئی دہلی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدہ صورت حال پر بھارت اور پاکستان کے سربراہان مملکت نے دوست ممالک کا تعاون حاصل کرنے کے لیے رابطے تیز کردیے ہیں۔
پاکستان کشمیر کی صورت حال پر اب تک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچوں مستقل ارکان سے رابطہ کرچکا ہے جب کہ بھارت نے چین کو چھوڑ کر فرانس، امریکہ، برطانیہ اور روس سے تعاون مانگا ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے جن عالمی رہنماؤں سے کشمیر کی صورت حال پر رابطہ کیا اُن میں ترک صدر رجب طیب اردوان، ملائیشین وزیرِ اعظم مہاتیر محمد، برطانوی ہم منصب بورنس جانسن، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جرمن چانسلر انجیلا مرکل، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان شامل ہیں۔
کشمیر کے معاملے پر تقریباً 50 سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرہ اجلاس 16 اگست کو ہوا جس کا کوئی اعلامیہ تو جاری نہیں ہوا۔ البتہ بھارت اور پاکستان کو مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
بھارت کا مؤقف ہے کہ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کرنے سے متعلق اقدام بھارت کا اندرونی معاملہ ہے جب کہ پاکستان بھارت کے مؤقف کی نفی کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے پر زور دیتا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کے معاملے پر حالیہ کشیدگی کے بعد دو ہفتوں کے دوران سفارتی اور سربراہان مملکت کی سطح پر رابطوں میں تیزی آچکی ہے۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعرات کو فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں سے پیرس میں ملاقات کی جس کے بعد وہ جمعے کی شب متحدہ عرب امارات پہنچے۔ جہاں انہوں نے اماراتی قیادت سے ملاقاتیں کیں اور مقامی اخبار خلیج ٹائمز کو انٹرویو بھی دیا۔
نریندر مودی نے اپنے انٹرویو میں کشمیر کے معاملے پر بھی بات کی اور جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا دفاع کرتے ہوئے اسے مکمل شفاف، جمہوری اور قانونی عمل قرار دیا۔
فرانسیسی میڈیا کے مطابق بھارت جی سیون ممالک کا رُکن تو نہیں البتہ نریندر مودی جی سیون اجلاس میں مدعو تھے اور انہوں نے اجلاس سے قبل صدر میخواں سے جمعرات کو ملاقات بھی کی تھی۔
اس ملاقات کے دوران بھارتی وزیر اعظم نے کشمیر پر کوئی بات نہیں کی۔ تاہم صدر میخواں نے کشمیر کا معاملہ اٹھاتے ہوئے بھارت اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ دوطرفہ مذاکرات کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کریں اور لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف سویلین آبادی کے مفادات اور حقوق کا خیال رکھیں۔
دوسری جانب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے جمعے کو جرمن چانسلر انجیلا مرکل کو فون کیا اور کشمیر سے متعلق بھارت کے حالیہ اقدامات سے آگاہ کیا۔
عمران خان نے انجیلا مرکل کو بتایا کہ بھارتی حکومت کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں، عالمی قوانین اور بین الاقوامی فورم پر کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن سے رابطہ
جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بھارتی اقدام کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے سات اگست کو برطانوی ہم منصب بورس جانسن کو ٹیلی فون کیا اور بھارتی اقدامات اور اس کے مستقبل کے اثرات سے آگاہ کیا۔
دونوں رہنماؤں نے مستقبل میں بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 21 اگست کو بورس جانسن کو فون کیا اور کشمیر کی حالیہ صورت حال پر گفتگو کی۔
نریندر مودی نے بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر لندن میں بھارت مخالف مظاہروں کا مدعا اٹھایا اور اس پر شکوہ کیا۔
اس موقع پر بورس جانسن کا کہنا تھا کہ برطانیہ کشمیر کے معاملے کو ایسے مسئلے کے طور پر دیکھتا ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان ہے اور اسے باہمی مذاکرات سے حل کیا جانا چاہیے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے رابطہ:
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 16 اگست کی شپ ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کا امریکی صدر سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے جس میں کشمیر کی صورت حال پر گفتگو کی گئی ہے۔
کشمیر کے معاملے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ دو مرتبہ ثالثی کی پیش کش کر چکے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے 20 اگست کو پہلے نریندر مودی کو فون کیا جس کے بعد عمران خان سے ٹیلی فونک گفتگو کے دوران کشیدگی کم کرنے سمیت باہمی مذاکرات پر زور دیا۔
اس حوالے سے صدر ٹرمپ نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ مودی اور عمران خان سے تجارت اور اسٹریٹیجک پارٹنرشپ پر بات ہوئی ہے۔ دونوں رہنماؤں کے ساتھ کشمیر کے معاملے پر تناؤ اور کشیدگی کم کرنے پر بھی بات کی ہے۔ صورت حال تشویش ناک ہے مگر بات چیت اچھی رہی ہے۔
گزشتہ ماہ عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ نریندر مودی کشمیر پر ثالثی چاہتے ہیں۔ تاہم بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے صدر ٹرمپ کے بیان کی تردید کی تھی۔
کشمیر پر چین کا کیا مؤقف ہے؟
سلامتی کونسل کا مستقل رکن چین کشمیر کے معاملے پر پاکستان کے مؤقف کے قریب دکھائی دیتا ہے۔
چین نے ہی پاکستان کے رابطہ کرنے پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کی درخواست کی اور اس طرح باقاعدہ طور پر کشمیر سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر تقریباً 50 سال بعد موضوع بحث آیا۔
اس اجلاس کے بعد چین کی طرف سے بیان سامنے آیا جس میں کہا گیا کہ بھارت اور پاکستان مذاکرات کے ذریعے ہی مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کریں۔
روس کہاں کھڑا ہے ؟
کشمیر کے معاملے پر پاکستان نے خارجہ سطح پر روس سے رابطہ کیا۔ اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے روسی ہم منصب سرگئی لارؤف سے 15 اگست کو ٹیلی فونک رابطے کے دوران کشمیر کی صورت حال پر گفتگو کی۔
سرگئی لارؤف نے مؤقف اختیار کیا کہ روس کشمیر کی صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے پرامن طریقے سے مذاکرات کے ذریعے تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل پر زور بھی دیا۔
کشمیر کے معاملے پر سلامتی کونسل کے اجلاس کی بازگشت ہوئی تو اقوام متحدہ میں روسی مندوب کا کہنا تھا کہ روس کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کا اجلاس بلائے جانے کی مخالفت نہیں کرے گا جب کہ اس سے قبل بھارتی میڈیا دعویٰ کر رہا تھا کہ روس سلامتی کونسل میں کشمیر پر ہونے والی بحث میں حصہ نہیں لے گا اور بھارت کا ساتھ دے گا۔