بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کےخاتمے کے بعد پاکستان اور بھارت میں کشیدگی بڑھی ہے۔ تاہم، حالیہ دنوں میں مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے بھارت کے وزیر خارجہ سمیت تین وزرا نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو بھی موضوع بنایا ہے۔ کیا اب پاکستان کا زیر انتظام کشمیر بھی اس مسئلے کا حصہ ہو گا۔
بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیر میں صرف پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر ہی بات ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر ہماری پوزیشن بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ کشمیر کا جو حصہ اس وقت پاکستان کے کنٹرول میں ہے، وہ بھارت کا حصہ ہے اور ہمیں امید ہے کہ ایک دن وہ بھارت کا حصہ ہو گا۔
بھارتی وزیر خارجہ کی طرح ہی بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی ایسا ہی بیان دیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان سے کسی قسم کی بات چیت ہو گی تو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر ہو گی جس میں گلگت بلتستان بھی شامل ہے۔ ان کے بقول، اس علاقے پر پاکستان کا قبضہ غیر قانونی ہے۔
ایسی صورت حال میں جب کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 47 روز سے کرفیو جاری ہے، بھارتی حکام کا ایسا بیان کیا معنی رکھتا ہے؟
دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کہتے ہیں کہ یہ بھارت کی طرف سے دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ ایسے بیانات دیے جائیں جس کے بعد پاکستان دباؤ میں آ کر ایسا ہی اقدام کرے جیسا کہ بھارت نے کیا ہے، یعنی کشمیر میں جس طرح آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا گیا، پاکستان بھی کچھ ایسا ہی کر کے موجودہ آزاد کشمیر کو پاکستان میں شامل کر لے۔ اس کے بعد یہ کہا جائے کہ تنازع ختم ہو گیا ہے۔ لیکن، اس معاملے کے اصل فریق کشمیری ہیں۔ لہذا، چاہے وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر ہو یا پھر بھارت کے، دونوں اطراف کے کشمیریوں کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
پاکستان نے بھارتی وزیر خارجہ کے بیان کی پر زور مذمت کی ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے اس سلسلے میں جو بیان جاری کیا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی وزیر کا بیان جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی بڑھتی ہوئی پامالیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ بھارت نے کشمیر میں فوجیوں کی تعداد بڑھا کر 8 ملین کی آبادی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا ثبوت ہے۔
دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ بھارت ایسے اقدامات سے عالمی برادری کی توجہ نہیں ہٹا سکتا۔ ایسے بیانات صورت حال کو مزید پیچیدہ اور خراب کریں گے۔
تجزیہ کار اور برسلز میں کشمیر فورم کے سربراہ سید علی رضا کہتے ہیں کہ آئندہ چند دنوں میں وزیر اعظم عمران خان امریکہ میں ہوں گے۔ جنرل اسمبلی میں ان کی تقریر سے پہلے اس طرح کے بیانات پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش ہے۔ بھارتی حکومت فی الحال تمام معاملات کو طاقت کے زور پر حل کرنا چاہتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں لائن آف کنٹرول پار کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، ایسی صورت حال خطرناک ہو سکتی ہے اور معاملات کو کسی اور طرف لے جا سکتی ہے۔
یہ تمام معاملات رواں ماہ امریکہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پہلے سامنے آ رہے ہیں، جس میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھی شریک ہو رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں اطراف سے آئندہ دنوں نیویارک میں عمران اور مودی کے درمیان کسی بھی ملاقات کو فی الحال خارج از امکان قرار دیا جا رہا ہے۔