بھارتی بلے باز ویراٹ کوہلی کے مطابق انہوں نے اپنے کریئر میں محمد عامر سے زیادہ مشکل بالر کا سامنا نہیں کیا لیکن خود محمد عامر کا کریئر پروان چڑھنے سے پہلے ہی اختتام پذیر ہو گیا۔
محمد عامر کے ریٹائرمنٹ کے فیصلے سے جہاں ان کے چاہنے والوں کو دکھ ہوا، وہیں کچھ سابق کھلاڑیوں نے اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محمد عامر کو ٹیم سے باہر ان کی خراب کارکردگی پر کیا گیا۔
بعض ماہرین کے مطابق محمد عامر نے ، بجائے اس کے کہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی کارکردگی بہتر بناتے، سارا ملبہ پی سی بی پر ڈال کر کرکٹ چھوڑ نے کا فیصلہ کر لیا۔
محمد عامر کی حالیہ کارکردگی
ایک حالیہ انٹرویو میں محمد عامر کا کہنا تھا کہ پی سی بی کی موجودہ انتظامیہ کے رویے کی وجہ سے انہوں نے کرکٹ کو خیرباد کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی جس کی وجہ سے انہوں نے دلبرداشتہ ہوکر ایسا فیصلہ کیا۔
لیکن اگر محمد عامر کی انفرادی کارکردگی دیکھی جائے تو وہ ایسی نہیں تھی کہ انہیں مستقل طور پر پاکستان ٹیم کے ساتھ رکھا جاتا۔
ان کی کارکردگی انہیں پاکستان سپر لیگ کے لیے تو سپر اسٹار بناتی ہے، انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے نہیں۔
اُنہوں نے اپنے 10 سالہ ٹیسٹ کریئر کے دوران 36 ٹیسٹ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 119 وکٹیں حاصل کیں۔
لیکن میچ میں 10 وکٹیں حاصل کرنے کا کارنامہ سر انجام نہ دے سکے۔ اسی دوران انہوں نے 61 ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں 81 وکٹیں حاصل کیں۔
2009 سے 2020 کے دوران 50 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں ان کی وکٹوں کی تعداد 59 رہی۔
انہوں نے آخری مرتبہ پاکستان کی نمائندگی بھی رواں سال انگلینڈ میں سیریز کے دوران کی، اور صرف دو اوورز میں 25 رنز دیے اور کوئی وکٹ حاصل نہ کر سکے۔
سال 2019 اور 2020 میں کھیلے گئے نو ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں انہوں نے صرف سات کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جن میں سے چھ میچز میں تو انہوں نے ایک بھی وکٹ حاصل نہیں کی تھی۔
اپنے ون ڈے کریئر کے آخری دو سال یعنی 2018 اور 2019 میں انہوں نے 25 ون ڈے میچز کھیلے، جن میں لگ بھگ 35 کی اوسط سے صرف 26 وکٹیں حاصل کیں۔
محمد عامر کے ٹیسٹ کریئر کا اختتام بھی کوئی بہترین نہیں ہوا، آخری بار انہوں نے ٹیسٹ میچ کی ایک اننگز میں پانچ وکٹوں کا کارنامہ 2017 میں کنگسٹن کے مقام پر ویسٹ انڈیز کے خلاف سرانجام دیا جس کے بعد انہوں نے مزید 10 ٹیسٹ میچز کھیلے اور ایک بھی اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل نہ کرسکے۔
سابق ٹیسٹ کرکٹرز کیا کہتے ہیں؟
کئی سابق کرکٹرز پہلے دن سے محمد عامر کی واپسی کے خلاف تھے، اور آج بھی ان کے ساتھ نہیں کھڑے۔
انہی کھلاڑیوں میں شامل ہیں سابق ٹیسٹ کرکٹر سکندر بخت کا کہنا ہے کہ محمد عامر کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرکے دل و جان سے کرکٹ کھیلتے نہ کے ڈراپ ہونے پر گلہ کرتے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سکندر بخت نے کہا کہ ایک ایسے کھلاڑی کو جس نے نہ صرف پاکستان کرکٹ کو بیچا بلکہ کرپشن کی، ناجائز پیسے کمائے اور جیل گیا، اسے ہاتھوں ہاتھ لینا بورڈ کی مرضی تھی، لہذٰا ڈراپ کرنے کا فیصلہ بھی اسی بورڈ نے کیا۔
سکندر بخت کہتے ہیں کہ "محمد عامر کو سلیم ملک، دانش کنیریا، سلمان بٹ اور محمد آصف کا حشر دیکھ کر سبق حاصل کرنا چاہیے تھا، وہ ان تمام کھلاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ خوش قسمت تھے کہ انہیں واپسی کا موقع ملا تھا، لیکن بورڈ کا احسان مند ہونے کے بجائے اُنہوں نے اسی بورڈ سے گلہ کرنا شروع کر دیا۔"
سکندر بخت نے مزید کہا کہ محمد عامر نے پہلے ٹیسٹ کرکٹ کو خیرباد کہا اور جب انہیں کسی نے لفٹ نہیں کرائی تو انٹرنیشنل کرکٹ سے ہی ریٹائرمنٹ لے لی۔
سکند بخت کے بقول "وہ کس بات کا گلہ کر رہےہیں ، انہیں تو خراب کارکردگی پر ڈراپ کیا گیا، ان کے ساتھ کوئی زیادتی ہوتی تو لوگ آواز اٹھاتے، لیکن یہاں تو ان سے بہتر کھلاڑیوں کو منتخب کیا گیا۔ فائنل الیون میں جگہ اچھی کاکردگی پر ملتی ہے، یہ کسی کی جاگیر یا جائیداد نہیں، اگر وہ ایسا سمجھتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔"
سابق کپتان اور معروف کمنٹیٹر رمیز راجا نے بھی محمد عامر کو ریٹائرمنٹ کے فیصلے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر آڑے ہاتھوں لیا۔
محمد عامر کی ریٹائرمنٹ پر بھی ان کا کہنا تھا کہ فاسٹ بالر کے کریئر سے نوجوانوں کو سیکھنا چاہیے سب کچھ پیسہ نہیں ہوتا، انسان کو اپنے ٹیلنٹ کی قدر کرنی چاہیے، اور جو ایسا کرتے ہیں، دنیا انہی کی عزت بھی کرتی ہے۔
کیا محمد عامر سے پاکستان کرکٹ کو فائدہ ہوا؟
معروف اسپورٹس صحافی سلیم خالق کا کہنا ہے کہ محمد عامر کی اچھی کارکردگی کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے، انہیں پاکستان کرکٹ بورڈ کا احسان مند ہونا چاہیے تھا۔
ان کی بات میں اس لیے وزن ہے کیوں کہ لوگ محمد عامر کے چیمپئینز ٹرافی اسپیل کو تو یاد رکھتے ہیں، اسی ایونٹ کے باقی میچز میں ان کی معمولی کارکردگی کو نہیں۔ ورلڈکپ 2019 میں ان کی سترہ وکٹیں کچھ کچھ لوگوں کو یاد ہیں، لیکن پاکستان کا ایونٹ کے سیمی فائنل تک نہ پہنچنے کا غم کرکٹ شائقین آج تک نہیں بھولے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سلیم خالق کا کہنا تھا کہ 2015 میں محمد عامر کو پاکستان کرکٹ بورڈ نے دوسرا موقع دے کر ان پر ایک طرح سے سرمایہ کاری کی، لیکن ٹاپ بالر ہونے کے باوجود انہوں نے 2019 میں دورۂ آسٹریلیا سے قبل ٹیسٹ کرکٹ کو خیرباد کہہ کرسب کو حیران کردیا۔
ان کے بعد آنے والے کھلاڑیوں نے اچھی کارکردگی دکھا کر بالنگ کوچ وقار یونس اور ہیڈ کوچ مصباح الحق کے آپشنز میں اضافہ کیا جس کی وجہ سے مینجمنٹ اب نئے کھلاڑیوں کو موقع دے رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ محمد عامر نے نہ ورک لوڈ کی وجہ سے ٹیسٹ کرکٹ چھوڑی اور نہ ہی انہیں کسی سے کوئی گلہ ہے، ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔ اگر ورک لوڈ ایشو ہوتا تو وہ دنیا بھر کی ساری لیگز نہ کھیل رہے ہوتے۔
سلیم خالق نے یہ بھی کہا کہ ایک سال قبل انہوں نے ایک خبر بریک کی تھی، جس میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ محمد عامر ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ برطانوی شہریت حاصل کرنے کے لیے لے رہے ہیں۔
اُن کے بقول "محمد عامر کی شادی ایک برطانوی خاتون سے ہو چکی ہے، جب میں نے خبر بریک کی تھی تو شہریت کا عمل مکمل ہونے والا تھا اور اب تو شاید مکمل ہو بھی گیا ہو گا،یہ وہی بہتر جانتے ہیں۔"
سلیم خالق کہتے ہیں کہ "ایک بات تو طے ہے، وہ اپنی ناکامی کا سارا ملبہ بورڈ پہ ڈال رہے ہیں تاکہ برطانیہ میں آرام سے رہ سکیں اور لوگوں کو بتا سکیں کہ ان کے ساتھ پاکستان میں ظلم ہوا، اور انہیں وہاں کوئی نہیں کھلا رہا۔ انہیں برطانیہ میں رہنے کا بہانہ چاہیے تھا جو انہیں مل گیا۔"
نئے کھلاڑیوں کی موجودگی میں عامر کے لیے جگہ بنانا ناممکن تھا!
سینئر اسپورٹس تجزیہ کار مرزا اقبال بیگ مانتے ہیں کہ بہتر اور کم عمر فاسٹ بالرز کی آمد کی وجہ سے محمد عامر کی اہمیت کم ہورہی تھی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر محمد عامر پاکستان کرکٹ بورڈ کو بلیک میل کر کے دنیا بھر میں آزادی سے لیگ کرکٹ کھیلنا چاہ رہے تھے، تو اس میں وہ بری طرح ناکام ہوئے۔
وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اتنے سارے فاسٹ بالرز کی موجودگی میں محمد عامر کی ٹیم میں جگہ ہی نہیں بنتی تھے، انہیں ریٹائرمنٹ کے علاوہ اپنی اہمیت دکھانے کا کوئی اور طریقہ سوچنا چاہیے تھا۔
اُن کے بقول "پاکستان ٹیم میں شاہین شاہ آفریدی آ گئے، نسیم شاہ نے سب کو متاثر کیا، جب کہ موسی خان، محمد حسنین، عثمان شنواری بھی ٹیم کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ ایک تو ان کے ہوتے ہوئے عامر کی قومی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی، دوسرا یہ کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا ریٹائرمنٹ کا جس کا انہوں نے انتخاب کیا، اگر انہیں کوئی اعتراض تھا تو پہلے کرتے۔"
مرزا اقبال بیگ کے بقول محمد عامر کی ریٹائرمنٹ کی بڑی وجہ کرکٹ لیگز ہیں، جہاں وہ سارا سال کرکٹ کھیل کر پیسہ کما سکتے ہیں، اگر وہ پاکستان کی نمائندگی کررہے ہوتے تو انہیں بورڈ کی جانب سے اجازت نہ ملتی۔
اُن کے بقول "عامر چاہ رہے تھے کہ ٹی ٹوئنٹی لیگز کھیلیں جہاں ایک موجودہ کرکٹر ہونے کی وجہ سے ان کا بھاؤ بڑھے لیکن ایسا نہیں ہوا اور انہوں نے بورڈ کو بلیک میل کرنے کے لیے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا۔ انہیں یہ بات سوچنی چاہیے تھی کہ وہاب ریاض ٹیم میں ہیں اور جنید خان اپنی باری کے انتظار میں ہیں، اوپر سے نئے کھلاڑیوں کی عمدہ کارکردگی نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہو گا۔"
محمد عامر کا معاملہ خود محمد عامر نے بگاڑا!
سابق کرکٹرز اور تجزیہ کاروں کی بات درست ہے کہ محمد عامر کو باقی کھلاڑیوں سے اپنا موازنہ نہیں کرنا چاہیے، دوسروں نے ملک کی عزت کا ہمیشہ پاس رکھا۔جب کہ محمد عامر پانچ سال کرکٹ سے صرف اس لیے دور رہے کیوں کہ انہوں نے اپنے کپتان کی بات مانی، اور ملک کی عزت کا کوئی خیال نہ رکھا۔
یہ بات بھی درست ہے کہ محمد عامر کو ریڈ بال (ٹیسٹ کرکٹ) چھوڑنے کا مشورہ کسی نے نہیں دیا، یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا، جس کے بعد انہیں اور وہاب ریاض دونوں کو ٹیم سے باہر کردیا گیا تھا۔
وہاب ریاض نے ریڈ بال کرکٹ سے ریٹائرمنٹ واپس لی اور آج ٹیم میں ہیں، محمد عامر نے ایسا نہیں کیا اور اب سابق انٹرنیشنل کرکٹر بن گئے ہیں۔
خیال رہے کہ محمد عامر گزشتہ کئی روز سے ٹوئٹر پر خاصے سرگرم تھے اور مختلف صحافیوں کی جانب سے اُنہیں ٹیم میں شامل نہ کیے جانے کے جواب پر اُن کا کہنا تھا کہ یہ سوالات 'مصباح صاحب' سے پوچھے جائیں۔
محمد عامر نے بالنگ کوچ وقار یونس پر بھی تنقید کی تھی۔
جہاں کئی سابق کھلاڑی محمد عامر پر تنقید کر رہے ہیں وہیں کئی صارفین اور سابق کرکٹرز اُن کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر شعیب اختر نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ "محمد عامر کو اُن کے حوالے کریں اور دیکھیں کہ وہ گراؤنڈ میں کیا کارنامے کرتا ہے۔ نہ ضائع کریں اس کو۔"
محمد عامر کی جانب سے مختلف چینلز کو دیے گئے انٹرویوز میں کہنا تھا کہ موجودہ پی سی بی انتظامیہ کی وجہ سے وہ شدید ذہنی دباؤ میں تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ وہ کرکٹ سے دُور نہیں جانا چاہتے تھے بلکہ اُن کے لیے ایسے حالات پیدا کر دیے گئے جس سے وہ اس سے دُور جانے پر مجبور ہوئے۔
وجہ چاہے کوئی بھی ہو، محمد عامر جیسے بالر کا پاکستان کرکٹ سے ناراض ہو کر ریٹائرمنٹ لے لینا کوئی اچھا قدم نہیں، ماضی میں بھی جاوید میانداد، یونس خان اور شاہد آفریدی جیسے کرکٹرز دلبرداشتہ ہو کر ایسے فیصلے لے چکے ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ کیا محمد عامر ان لیجنڈز کی طرح یوٹرن لیتے ہیں، یا ان کی منزل واقعی کہیں اور ہے۔