|
اسلام آباد -- پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور التوا کا شکار ہو گیا ہے۔
بعض حلقے اب بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ مقتدر حلقوں اور پی ٹی آئی کے درمیان بیک ڈور رابطے جاری ہیں۔ حکومت کی جانب سے ان رابطوں کی تردید کی جا رہی ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بیک ڈور مذاکرات کے ذریعے جو چیزیں طے ہوں گی اس کا اعلان باضابطہ مذاکرات کے دوران ہی کیا جائے گا۔
دو جنوری کو حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور ہوا تھا۔
اجلاس میں پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ تحریری مطالبات پیش کرنے کے لیے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات، مشاورت اور رہنمائی حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔
اپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹی نے عمران خان کے ساتھ ملاقات کے بعد مذاکرات کے تیسرے اجلاس میں چارٹر آف ڈیمانڈ باقاعدہ تحریری شکل میں دینے کی حامی بھری تھی جس کے بعد یہ طے پایا تھا کہ پی ٹی آئی کمیٹی کی عمران خان سے ملاقات کے بعد اگلے ہفتے دونوں کمیٹیوں کی تیسری نشست کی تاریخ کا تعین کیا جائے گا۔
دو جنوری کو ہونے والے اس فیصلے کو سات دن گزر چکے ہیں تاہم پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کی عمران خان سے تاحال ملاقات نہیں ہو سکی جس کے باعث مذاکرات کا تیسرا دور تاخیر کا شکار ہو گیا ہے۔ حکومتی اور اپوزیشن کی مذاکراتی کمیٹیوں کی صدارت کرنے والے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ملک سے باہر گئے ہوئے ہیں جس کے باعث رواں ہفتے کے دوران مذاکراتی کمیٹیوں کی تیسری نشست نہ ہونے کا امکان ہے۔
رہنما تحریکِ انصاف عمر ایوب کا مطالبہ ہے کہ عمران خان سے ملاقات نگرانی کے کیمروں کے بغیر کرائی جائے۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ عمران خان سے ملاقات ایک محدود جگہ پر کرائی جاتی ہے جو خفیہ کیمروں اور سننے والے آلات سے لیس ہے جس سے ہماری بات چیت کی رازداری پر سمجھوتہ ہوتا ہے۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ مذاکرات کے تیسرے دور میں تاخیر کی وجہ اسپیکر سردار ایاز صادق کے غیر ملکی دورے کو قرار دیتے ہیں۔
چیئرمین تحریکِ انصاف بیرسٹر گوہر خان کہتے ہیں کہ عمران خان نے مذاکرات جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے جب کہ مطالبات تحریری طور پر حکومت کو دینے کی بھی منظوری دی ہے۔
پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان صاحبزادہ حامد رضا کا کہنا ہے کہ ہم تو مذاکرات میں ڈیڈ لاک کا اعلان کر چکے تھے تاہم بانی پی ٹی آئی کا پیغام ملا ہے کہ ہم تحریری مطالبات پیش کردیں گے تاہم اگر مذاکراتی کمیٹیوں کی تیسری نشست میں نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر کمیشن بنانے کا فیصلہ نہ ہوا تو پھر مذاکرات کی اگلی نشست نہیں ہو گی۔
کیا تحریکِ انصاف کے طاقت ور حلقوں کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں؟
پاکستان میں بعض ماہرین بیک ڈور مذاکرات کی بات کر رہے ہیں جب کہ بعض اخبارات نے ذرائع کے حوالے سے اسٹوریز بھی شائع کی ہیں۔
سینئر تجزیہ کار نصرت جاوید کا دعویٰ ہے کہ تحریکِ انصاف اور طاقت ور حلقوں کے درمیان بیک ڈور مذاکرات ہو رہے ہیں جن میں بشریٰ بی بی اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اطلاعات ہیں کہ بشریٰ بی بی کم سے کم تین مرتبہ بغیر سیکیورٹی کے اپنی رہائش گاہ سے مذاکرات کے لیے جا چکی ہیں۔ اس وقت بیک ڈور مذاکرات میں تعطل ہے تاہم ڈیڈ لاک نہیں ہے۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات صرف دکھاوا ہیں، اصل مذاکرات بیک ڈور ہی ہو رہے ہیں۔
'تحریکِ انصاف کو ریلیف دینے کا فیصلہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا ہی ہو گا'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ حکومت کو تحریکِ انصاف اور طاقت ور حلقوں کے بیک ڈور رابطوں کا علم ہے۔ تاہم مذاکرات کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کا فیصلہ حکومت اور مقتدر حلقوں کا مشترکہ فیصلہ ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حکومت نو مئی، 26 مئی اور آٹھ فروری پر عدالتی کمیشن بنانے پر رضامند ہو سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے ججز پی ٹی آئی کے مرضی کے نہیں ہوں گے۔
سہیل وڑائچ کے بقول پی ٹی آئی چاہے گی کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر عدالتی تحقیقات کریں، تاہم حکومت اس پر شاید رضا مند نہ ہو۔
اُن کا کہنا تھا کہ مذاکرات اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں، جب عمران خان جیل سے باہر آ کر سیاسی طور پر زیادہ متحرک نہ ہوں اور احتجاج کی سیاست کو ترک کریں۔ لہذٰا یہ عمران خان کے لیے مشکل ہو گا۔
'اگر پی ٹی آئی اور مقتدر حلقوں کے مذاکرات ہوں بھی رہے ہیں تو کوئی تعجب نہیں'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ اُن کے پاس ایسی معلومات نہیں ہیں کہ تحریکِ انصاف اور مقتدر حلقوں کے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ تاہم اگر تحریکِ انصاف اور طاقت ور حلقوں کے درمیان مذاکرات ہو بھی رہے ہیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے مظہر عباس کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں بشریٰ بی بی کا کردار اہم ہے۔ مذاکرات 'کچھ دو اور کچھ لو' کی بنیاد پر ہی ہوں گے، لیکن فی الحال یہ صورتِ حال نظر نہیں آتی۔
خیال رہے کہ وزیرِ اعظم کے مشیر برائے سیاسی اُمور رانا ثناء اللہ یہ کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کو بنی گالا منتقل کرنے کی کوئی پیش کش نہیں کی گئی۔ اُن کے بقول عمران خان کو رہا کرنے کے لیے بھی حکومت پر کوئی دباؤ نہیں ہے۔
تاہم پی ٹی آئی کی کورآڈینیشن کمیٹی کے ایک رکن کا کہنا تھا کہ حکومت کو واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے کہ 21 جنوری کے بعد عمران خان کو جیل میں رکھنا مشکل ہو گا۔ اُن کے بقول اگر حکومت پر کوئی دباؤ نہیں ہے تو پی ٹی آئی کے مطالبے پر کمیٹی کیوں بنائی گی 26 نومبر کے بعد بھی بات چیت کے لیے حکومت کیسے راضی ہو گئی۔
ان کا مزید کہنا تھا پی ٹی آئی اس حکومت کو پانچ سال حکومت آسانی سے کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ تاہم مڈ ٹرم انتخابات پر بات بن سکتی ہے۔
فورم