|
اسلام آباد -- پاکستان کے وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے اعلان کیا ہے کہ حکومتی اخراجات میں کمی لانے کے لیے مختلف وزارتوں اور محکموں کی ڈیڑھ لاکھ خالی آسامیاں ختم کی جا رہی ہیں۔
منگل کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اس وقت تین لاکھ کے قریب خالی سرکاری آسامیاں ہیں جن میں سے 60 فی صد کو فوری ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کے بقول ڈیڑھ لاکھ آسامیوں کو ختم کرنا، حکومت کے 900 ارب روپے کے جاری اخراجات میں کمی لانے کے سلسلے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
پاکستان کی حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام میں بھی حکومتی حجم اور اخراجات کو کم کرنے کی یقین دہانی کروا رکھی ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ رائٹ سائزنگ کے ان تمام اقدامات کو وفاقی کابینہ کی منظوری حاصل ہے۔
وزیرِ خزانہ نے کہا کہ پہلے چھ ماہ کی کوششوں سے پاکستان میکرو اکنامک استحکام میں بہترین جگہ پر ہے اور اب ہماری توجہ مستحکم گروتھ کی طرف ہے۔
'حکومت یہ کام تین سال پہلے کر لیتی تو نوکریاں ختم کرنے کی نوبت نہ آتی'
ماہرین کا کہنا ہے کہ ادارہ جاتی اصلاحات کے نتائج اسی صورت آئیں گے جب پالیسی فیصلوں کو مستقل بنیادوں مکمل کیا جائے گا۔
سابق گورنر اسٹیٹ بینک اور ادارہ جاتی اصلاحات کی حکومتی کمیٹی کے سابق سربراہ ڈاکٹر عشرت حسین کہتے ہیں کہ یہ ایک اچھا اقدام ہے جسے حکومت کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات اگر حکومت تین سال پہلے لے چکی ہوتی تو آج کسی کو نوکری سے نکالے بغیر حکومت کا حجم بہت کم ہو چکا ہوتا۔
ان کے بقول انہوں نے 2021 میں اپنی سفارشات مکمل کر کے حکومت کے حوالے کر دیں تھی جس پر اگر فوری عمل کیا جاتا تو آج حکومت کے معاشی معاملات میں بہت آسانیاں ہوتیں۔
ڈاکٹر عشرت حسین کہتے ہیں کہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ اس عمل میں صوبوں کو بھی شریک کرے کیوں کہ محصولات کا 66 فی صد صوبوں کو جاتا ہے اور اگر صوبے بھی اس میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس کے بہت بہتر اثرات ہوں گے۔
اسلام آباد کے تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس 'پائید' سے وابستہ ڈاکٹر عبدالجلیل کہتے ہیں کہ معاشی اصلاحات اور حکومتی اخراجات کو کم کرنے کے حوالے سے یہ بہت اچھا آغاز ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کافی عرصے سے اصلاحات کا سوچ رہی تھی اور اب دیکھنا ہو گا کہ اسے کتنا آگے لے کر جا سکتی ہے۔
ان کے بقول جب پالیسی تبدیلی میں انتظامی مسائل آتے ہیں تو حکومت پیچھے ہٹ جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حال ہی میں حکومت نے یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن اور پی ڈبلیو ڈی کے اداروں کو ختم کرنے کا اعلان کیا تو اس پر احتجاج ہونے لگے جس کے بعد حکومت کو یہ فیصلے واپس لینا پڑے۔
ڈاکٹر عبدالجلیل کے بقول حکومتی اخراجات کو کم کرنے اور معاشی اصلاحات کے حوالے سے اقدامات کو طویل عرصے تک لے کر چلنا ہو گا تب ہی اس کے اثرات سامنے آئیں گے۔
ڈاکٹر عشرت حسین کہتے ہیں کہ وزیر خزانہ معاشی و ادارہ جاتی اصلاحات کے حوالے سے کافی پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں اور ان کی مرتب کردہ سفارشات کی بنیاد پر ہی آگے بڑھ رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان اصلاحات پر اسی وقت مکمل طور پر عمل درآمد ممکن ہو سکے گا جب حکومت اتحاد میں شامل جماعتیں اس پر اتفاق رائے رکھتی ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ اصلاحات کے اقدامات غیر مقبول ہوتے ہیں اور اتحاد میں شامل جماعتیں ایسے اقدامات کی حمایت نہیں کرتیں جس سے اس پر عمل درآمد رک جاتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالجلیل کہتے ہیں کہ پاکستان کا مسئلہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی نہیں ہے کیوں کہ اس کی شرح اگر دیکھی جائے تو وہ دنیا کے 130 ممالک کے برابر ہے تاہم مسئلہ حکومت کے بڑے حجم اور حکومتی اخراجات کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ملک کی اشرافیہ معاشی عدم استحکام سے فائدہ اٹھاتی ہے لہذا وہ ایسے پالیسی اقدام مکمل نہیں ہوتے دیتی جس سے ملک میں استحکام آ سکے۔
کون سی وزارتیں اور محکمے ختم ہو رہے ہیں؟
پریس کانفرنس کے دوران وزیرِ خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ حکومت بتدریج رائٹ سائزنگ کی طرف بڑھ رہی ہے اور 43 وزارتوں اور 400 ذیلی محکموں کا جائزہ لینے کے بعد پہلے مرحلے میں وزارت کیڈ کو ختم کیا جا رہا ہے جب کہ وزارت کشمیر، گلگت بلتستان اور سیفران کو ایک وزارت کا درجہ دیا جائے گا۔
وزیرِ خزانہ نے کہا کہ اس پہلے مرحلے میں پانچ وفاقی وزارتوں کے 80 اداروں کی تعداد کم کرکے 40 کردی گئی۔
محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم نے جون 2024 میں وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کے لیے کمیٹی بنائی تھی۔ جن اداروں کی افادیت نہیں رہی، انہیں برقرار رکھنے یا نہ رکھنے سے متعلق کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کا کام پالیسیاں بنانا ہے، روزگار دینا نجی شعبے کا کام ہے، نجی شعبے کو ملکی معیشت کو سنبھالنا ہوگا۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے، اہداف درست سمت میں جا رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم حکومتی اخراجات کم کرنے جا رہے ہیں، یہ وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ کی جانب اہم قدم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ‘خدمات (سروسز) سے متعلق آسامیوں کو آؤٹ سورس کیا جائے گا۔'
انہوں نے کہا کہ ’اس کمیٹی کے ٹی او آرز کا مقصد وفاقی حکومت کے اخراجات میں کمی لانا ہے۔ اصل مسئلہ وزارتوں کے ساتھ منسلک ڈپارٹمنٹس ہیں۔ 43 وزارتوں اور ان کے 400 محکموں سے متعلق مشاورت جاری ہے۔ ایک وقت میں پانچ سے چھ محکموں کو ختم کریں گے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ دوسرے مرحلے میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، کامرس ڈویژن، ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور نیشنل فوڈ سیکیورٹی کے 60 ذیلی اداروں میں سے 25 کو ختم، 20 میں کمی اور 9 کو ضم کیا جائے گا۔
فورم