رسائی کے لنکس

فوجی عدالتوں کا کیس: آئین واضح ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا: سپریم کورٹ


  • آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا اور فوجی عدالتوں کے کیس میں یہ بنیادی آئینی سوال ہے: جسٹس جمال مندوخیل
  • سپریم کورٹ نے ماضی میں قرار دیا تھا کہ فوج کے ماتحت سویلنز کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے، کوئی اور فورم دستیاب نہ ہو تو ایگزیکٹو فیصلہ کر سکتا ہے: وکیل وزارتِ دفاع
  • آئین کا آرٹیکل 8(3) افواج کے ڈسپلن اور کارکردگی کے حوالے سے ہے۔ کیا فوجداری معاملے کو آرٹیکل 8(3) میں شامل کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل
  • افواجِ پاکستان کے لوگ بھی اتنے ہی شہری ہیں جتنے دوسرے۔ بنیادی آئینی حقوق کی بنیاد پر آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا: وکیل خواجہ حارث

اسلام آباد — پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کے دوران کہا ہے کہ آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے منگل کو فوجی عدالتوں کے ٹرائل کے خلاف دائر مختلف درخواستوں کو یکجا کرکے سماعت کی تو اس موقع پر وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بینچ میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔

منگل کو سماعت کے دوران وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں قرار دیا تھا کہ فوج کے ماتحت سویلنز کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے۔

جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ موجودہ کیس میں متاثرہ فریق اور اپیل دائر کرنے والا کون ہے؟

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اپیل وزارتِ دفاع نے دائر کی ہے اور وزارتِ دفاع ایگزیکٹو کا ادارہ ہے۔

جسٹس جمال نے پھر استفسار کیا کہ ایگزیکٹو کے خلاف اگر کوئی جرم ہو تو کیا وہ خود جج بن کر فیصلہ کر سکتا ہے؟

جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ آئین میں اختیارات کی تقسیم بالکل واضح ہے کہ ایگزیکٹو عدلیہ کا کردار ادا نہیں کر سکتا اور فوجی عدالتوں کے کیس میں یہ بنیادی آئینی سوال ہے۔

خواجہ حارث نے اس پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ کوئی اور فورم دستیاب نہ ہو تو ایگزیکٹو فیصلہ کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ نو مئی 2023 کے واقعات کے الزام میں 100 سے زائد افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے تھے۔

فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق نو مئی واقعات میں ملوث مجموعی طور پر 67 افراد نے رحم کی اپیلیں دائر کی تھیں جن میں سے 19 کی سزائیں معاف کر دی گئی ہیں جب کہ 48 افراد کا معاملہ کورٹ آف اپیل میں جائے گا۔

فوجی عدالتوں کا سامنا کرنے والے افراد پر الزام ہے کہ انہوں نے نو مئی 2023 کو سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے احتجاج کے دوران فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ قانون میں انسدادِ دہشت گردی عدالتوں کا فورم موجود ہے تو قانونی فورم کے ہوتے ہوئے ایگزیکٹو خود کیسے جج بن سکتا ہے؟

جس پر وزارتِ دفاع کے وکیل نے کہا کہ آپ کی بات درست ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کو صرف مسلح افواج کے ممبران تک محدود کیا گیا ہے۔

اس پر وزارتِ دفاع کے وکیل نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، آرمی ایکٹ صرف آرمڈ فورسز تک محدود نہیں کیوں کہ اس میں مختلف دیگر کیٹیگریز شامل ہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ وہ سماعت میں آگے چل کر اس طرف بھی آئیں گے۔

'آئین میں سویلینز کا نہیں شہریوں کا ذکر ہے'

سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل نے وزارتِ دفاع کے وکیل سے استفسار کیا کہ آئین میں سویلنز کا نہیں پاکستان کے شہریوں کا ذکر ہے۔ آئین کا آرٹیکل 8(3) افواج کے ڈسپلن اور کارکردگی کے حوالے سے ہے۔ کیا فوجداری معاملے کو آرٹیکل 8(3) میں شامل کیا جا سکتا ہے؟

اس موقع پر وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ افواجِ پاکستان کے لوگ بھی اتنے ہی شہری ہیں جتنے دوسرے۔ بنیادی آئینی حقوق کی بنیاد پر آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

جسٹس مظاہر نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ کوئی شہری روکنے کے باوجود کسی فوجی چوکی کے پاس جانا چاہے تو کیا ہو گا؟ کیا کام سے روکنے کے الزام پر اسے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کیا جائے گا؟

اس سوال پر وزارتِ دفاع کے وکیل نے کہا کہ آپ نے ایک صورتِ حال بتائی اس پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔

اس موقع پر بینچ کی رکن جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ تو سب سے متعلقہ سوال ہے جب کہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس سوال کا جواب بہت سادہ سا ہے۔ اگر وہ شہری آرمی ایکٹ میں درج جرم کا مرتکب ہوا تو ٹرائل چلے گا۔ صرف چوکی کے باہر کھڑے ہونے پر تو کچھ نہیں ہو گا۔

سپریم کورٹ نے ابتدائی دلائل سننے کے بعد کیس کی مزید سماعت بدھ تک کے لیے ملتوی کر دی۔ وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث آئندہ سماعت پر بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

XS
SM
MD
LG