رسائی کے لنکس

ٹروڈو امریکہ کے بہترین دوست تھے: کینیڈین وزیرِ اعظم کے استعفے پروائٹ ہاؤس کا رد عمل


جسٹن ٹروڈو۔ فائل فوٹو
جسٹن ٹروڈو۔ فائل فوٹو

  • وزیر اعظم ٹروڈو کینیڈا کی حکومت کی تقریباً عشرے پر محیط اپنی قیادت کے دوران ، امریکہ کے مخلص دوست تھے۔ ٹروڈو کے مستعفی ہونے پر امریکہ کا ردعمل۔
  • کینیڈا کے وزیر خزانہ کی اچانک رخصتی کے بعد ٹروڈو کے استعفے کو حکومت میں بڑھتے ہوئے اندرونی خلفشار کے اظہار کے طور پر لیا جارہا ہے۔
  • ٹروڈو کے مطابق وہ لبرل پارٹی کے نئے رہنما کے انتخاب تک وزیر اعظم رہیں گے۔
  • اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے ٹروڈو نے کہا کہ موجودہ صورت حال نے ان پر واضح کر دیا ہے کہ وہ "اندرونی لڑائیوں کی وجہ سے اگلے انتخابات کے دوران قیادت نہیں کر سکتے۔"
  • "ایسو سی ایٹڈ پریس" کے مطابق پارلیمنٹ، جس کا اجلاس 27 جنوری کو منعقد ہونا تھا، اب اسے 24 مارچ تک معطل کردیا جائے گا۔

وائٹ ہاؤس نے پیر کے روز کہا کہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو ،جنہوں نے نو سال تک اقتدار میں رہنے کے بعد آنے والے مہینوں میں مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے ، امریکہ کے ایک مخلص دوست تھے ۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرن یاں پئیر نے نامہ نگاروں کو بتایا، ’’ وزیر اعظم ٹروڈو کینیڈا کی حکومت کی عشرے پر محیط اپنی قیادت کے دوران ، امریکہ کے مخلص دوست رہے ہیں ، ہم نے ہر قسم کے معاملات پر قریبی طور پر مل کرکام کیا ہے ۔‘‘

ترجمان نے مزید کہا، ’’ صدر وزیر اعظم کی اس تمام شراکت داری اور نارتھ امریکہ کا اکیسویں صدی کے جیو پولیٹیکل خطرات سے دفاع کرنے سے ان کی وابستگی پر ان کے شکر گزار ہیں ۔"

کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے پیر کو اپنی قیادت پر بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کے پیش نظر استعفیٰ دینے کا اعلان کیا ہے۔

کینیڈا کے وزیر خزانہ کی اچانک رخصتی کے بعد ٹروڈو کے استعفے کو ان کی حکومت میں بڑھتے ہوئے اندرونی خلفشار کے اظہار کے طور پر لیا جارہا ہے۔

اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے ٹروڈو نے کہا کہ موجودہ صورت حال نے ان پر واضح کر دیا ہے کہ وہ "اندرونی لڑائیوں کی وجہ سے اگلے انتخابات کے دوران قیادت نہیں کر سکتے۔"

ٹروڈو کے مطابق وہ لبرل پارٹی کے نئے رہنما کے انتخاب تک وزیر اعظم رہیں گے۔

اس موقع پر انہوں نے کہا، "میں آسانی سے کسی لڑائی میں ہار نہیں مانتا، خاص طور پر جب یہ لڑائی اپنی جماعت اور ملک کے لیے اہم ہو۔"

"میں یہ کام کینیڈا کے لوگوں کے مفاد میں کرتا ہوں اور جمہوریت کی فلاح مجھے بہت عزیز ہے۔"

ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق اس پیش رفت سے آگاہ ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ پارلیمنٹ، جس کا اجلاس 27 جنوری کو منعقد ہونا تھا، اب اسے 24 مارچ تک معطل کردیا جائے گا۔

اس دوران لبرل پارٹی میں مستقبل کی قیادت کے انتخاب کے لیے اراکین کوشش کریں گے۔

کینیڈا کی حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے کہا ہے کہ وہ پارلیمان کے اجلاس کے شروع ہونے پر لبرل پارٹی کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعہ اقتدار سے ہٹا دیں گی۔

اس تناظر میں موسم بہار کے دوران ایک پائیدار متبادل کو ممکن بنانے کے لیے الیکشن ضروری نظر آتا ہے۔

ٹروڈو نے اس ضمن میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کینیڈا کی لبرل پارٹی ان کے عظیم ملک اور جمہوریت کی تاریخ میں ایک اہم ادارہ ہے۔

انہوں نے کہا،"ایک نیا وزیر اعظم اور لبرل پارٹی کا رہنما اس کی اقدار اور نظریات کو اگلے انتخابات میں لے کر جائے گا۔"

انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر پرجوش ہیں کہ اگلے مہینوں میں یہ عمل آگے بڑھے گا۔

واضح رہے کہ ٹروڈو سال 2015 میں کینیڈا کی کنزرویٹو پارٹی کے دس سالہ دور حکومت کے بعد ملک کے وزیر اعظم بنے تھے۔

ملک کو اس کے آزاد سوچ کے حامل ماضی کی طرف لوٹانے پر ان کی تعریف کی گئی تھی۔

تاہم، حالیہ برسوں میں 53 سالہ ٹروڈو لوگوں میں اپنی مقبولیت کھو بیٹھے۔

ان کو جن مسائل پر تنقید کا سامنا رہا ہے ان میں خوراک اور رہائش کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتیں اور امیگریشن میں اضافہ شامل ہیں۔

کینیڈا میں یہ سیاسی بحران ملک کے لیے بین الاقو امی طور پر ایک مشکل لمحے کے وقت پیش آیا ہے۔

امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر کینیڈا کی حکومت نے امریکہ میں تارکین وطن اور منشیات کے بہاؤ کو روکنے کی کوشش نہیں کی تو اس کی تمام درآمدی اشیاء پر 25 فیصد محصولات عائد کر دیے جائیں گے۔

اے پی کے مطابق امریکہ کے دوسرے ہمسایہ ملک میکسیکو کے مقابلے میں کینیڈا سے امریکہ میں بہت کم تارکین وطن اور منشیات کا بہاؤ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

خیال رہےکہ کینیڈا امریکہ کو تیل اور قدرتی گیس کا ایک بڑا برآمد کنندہ ہے۔

اس کے علاوہ، امریکہ اسٹیل، ایلومینیم اور گاڑیوں کے لیے بھی اپنے شمالی پڑوسی پر انحصار کرتا ہے۔

حالیہ ہفتوں میں ٹروڈو نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کے شدید دباؤ کے ماحول میں عوامی سطح پر خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔

اس سلسلے میں تبصرہ کرتے ہوئے مونٹریال کی میک گل یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ڈینیل بیلنڈ کہتے ہیں، "اس سیاسی ڈرامے کے بعد ان کی طویل خاموشی ان کی موجودہ حالت کی کمزوری کا اظہار ہے۔"

کینیڈا کی سابق وزیر خزانہ کرسٹیا فری لینڈ نے پچھلے سال 16 دسمبر کو وزیر اعظم ٹروڈو کی کابینہ سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے دھمکیوں کے پیش نظر ٹروڈو کی اقتصادی ترجیحات میں سے کچھ پر تنقید کی تھی۔

اس سے تھوڑی دیر قبل ہی کینیڈا کے وزیر برائے ہاؤسنگ نے بھی استعفیٰ دیا تھا۔

اس صورت حال نے ملک کو حیران کردیا اور سوالات اٹھنے لگے کہ تیزی سے غیر مقبول ہوتے ہوئے ٹروڈو کب تک اپنے عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں۔

(ٓاس خبر میں شامل معلومات کو اے پی سے لیا گیا ہے)

فورم

XS
SM
MD
LG