رسائی کے لنکس

جیک سلیوان کا دورہ بھارت: امریکہ بھارتی جوہری اداروں پرعائد پابندیاں ہٹا رہا ہے؟


امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نئی دہلی کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی ایک تقریب میں تقریر کر رہے ہیں۔ 6 جنوری 2025
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نئی دہلی کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کی ایک تقریب میں تقریر کر رہے ہیں۔ 6 جنوری 2025
  • امریکہ اور بھارت کے درمیان 2007 میں سویلین نیوکلیئر معاہدہ ہوا تھا۔
  • اس معاہدے کا مقصد امریکی کمپنیوں کو جوہری بجلی گھروں کی تعمیر کے لیے ری ایکٹر فروخت کرنے کی اجازت دینا تھا۔
  • سال 1998 میں بھارت کے جوہری ہتھیاروں کے تجربے کے بعد امریکہ نے 200 سے زیادہ بھارتی اداروں پر پابندیاں لگا دیں تھیں۔
  • دونوں ملکوں کے درمیان رفتہ رفتہ تعلقات میں بہتری کے بعد کئی اداروں پر سے پابندیاں اٹھ چکی ہیں لیکن ابھی تک کچھ اہم بھارتی اداروں پر پابندیاں برقرار ہیں۔
  • امریکہ نے سویلین نیوکلیئر معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے یہ پابندیاں اٹھانے کا عندیہ دیا ہے۔

امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے پیر کو کہا ہے کہ امریکی حکومت بھارت کے جوہری اداروں پر عائد پابندیاں ہٹانے کے لیے کام کر رہی ہے، جس کا مقصد نئی دہلی کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تعلقات کو آگے بڑھانا اور 20 سالہ پرانے تاریخی سویلین نیوکلیئر معاہدے کو تقویت دینا ہے۔

سلیوان کے دورے پر بھارت کے ایک اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ٹرمپ کے گزشتہ دور میں اور بائیڈن کی انتطامیہ کی بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری مضبوط کرنا امریکہ کی پالیسی رہی ہے اور واشنگٹن میں اقتدار کی تبدیلی کے ان ایام میں سلیوان کا دورہ دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی اسٹرٹیجک ہم آہنگی کی نشاندہی کرتا ہے۔

واشنگٹن اور نئی دہلی 2000 کے عشرے کے وسط سے امریکی جوہری ری ایکٹرز کی فراہمی پر بات چیت کر رہے ہیں، کیونکہ بھارت کو اپنی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے توانائی کی اشد ضرورت ہے۔

دنیا بھر میں جوہری بجلی گھروں کو شفاف، دیرپا اور ارزاں توانائی کے حصول کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن دوسری جانب ایٹمی ری ایکٹر، ہلاکت خیز جوہری ہتھیار بنانے کے لیے بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں، جسے روکنے کے لیے کڑی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

2007 میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھارت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت امریکہ سے بھارت کو سویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی فروخت کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔

امریکی قومی سلامتی کے مشییر جیک سلیوان نئی دہلی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ 17 جون 2024
امریکی قومی سلامتی کے مشییر جیک سلیوان نئی دہلی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ 17 جون 2024

لیکن اس معاہدے کی تکمیل میں ایک دیرینہ رکاوٹ عالمی قوانین کے تحت بھارت پر ذمہ داری کا تعین رہا ہے، جس کے مطابق ضروری ہے کہ کسی بھی حادثے کا بوجھ ری ایکٹر بنانے والے کے بجائے اسے استعمال کرنے والا اٹھائے۔

سلیوان نے بھارت کے اپنے دو روزہ دورے کے دوسرے دن نئی دہلی میں ایک تقریب کے دوران کہا ہے کہ امریکہ ان قدیم ضابطوں کو ختم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کو حتمی شکل دے رہا ہے جو بھارت کے اہم جوہری اداروں اور امریکی کمپنیوں کے درمیان سویلین نیوکلیئر تعاون کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ امریکہ اپنے ضابطوں میں کیا تبدیلیاں کرے گا۔ امریکی اور بھارتی حکام نے بھی اس بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ضابطے کی کاغذی کارروائی جلد ہی مکمل کی جائے گی۔ یہ ماضی کے کچھ تنازعات پلٹنے کا عمل ہو گا اور امریکہ کی پابندیوں والی فہرست میں موجود بھارتی اداروں کو اس سے نکلنے کے لیے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر بھارت کے اپنے دو روزہ دورے میں نئی دہلی میں انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں تقریر کے لیے آ رہے ہیں۔ 6 جنوری 2025
امریکی قومی سلامتی کے مشیر بھارت کے اپنے دو روزہ دورے میں نئی دہلی میں انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں تقریر کے لیے آ رہے ہیں۔ 6 جنوری 2025

نئی دہلی میں آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے ایک تجزیہ کار منوج جوشی نے امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر سلیوان کے بھارت کے دورے پر اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ یہ دورہ بنیادی طور پر بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے امریکہ بھارت تعلقات اور اہم ٹیکنالوجیز پر تعاون کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

تاہم امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی کے حوالے سے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت ہم یہ نہیں جانتے ٹرمپ کے دور میں یہ تعلقات کیا شکل اختیار کریں گے۔

ایک بھارتی عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ 1998 میں بھارت کے جوہری ہتھیاروں کے تجربے کے بعد امریکہ نے 200 سے زیادہ بھارتی اداروں پر پابندیاں لگا دیں تھیں۔ لیکن گزرنے والے کئی برسوں کے دوران دو طرفہ تعلقات میں بہتری آنے کے بعد کئی اداروں کو پابندیوں والی فہرست سے نکالا جا چکا ہے۔

امریکی محکمہ تجارت کی پابندیوں کی فہرست میں اس وقت بھی بھارت کے جوہری توانائی کے محکمے کے کم از کم چار ادارے، کچھ جوہری ری ایکٹر اور نیوکلیئر پاور پلانٹس موجود ہیں۔

جوہری معاوضے سے منسلک بھارتی قوانین بہت سخت ہیں جن کی وجہ سے جوہری بجلی گھر بنانے والی غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کو نقصان پہنچ چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارت کو جوہری بجلی کی پیداوار میں 20 ہزار میگا واٹ اضافے کے سال 2020 کے اپنے ہدف کو 2030 پر مؤخر کرنا پڑا ہے۔

سال 2019 میں بھارت اور امریکہ کے درمیان بھارت میں چھ جوہری بجلی گھر تعمیر کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔

(اس رپورٹ کی کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG