|
امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے پیر کو کہا ہے کہ امریکی حکومت بھارت کے جوہری اداروں پر عائد پابندیاں ہٹانے کے لیے کام کر رہی ہے، جس کا مقصد نئی دہلی کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تعلقات کو آگے بڑھانا اور 20 سالہ پرانے تاریخی سویلین نیوکلیئر معاہدے کو تقویت دینا ہے۔
سلیوان کے دورے پر بھارت کے ایک اخبار انڈین ایکسپریس نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ٹرمپ کے گزشتہ دور میں اور بائیڈن کی انتطامیہ کی بھارت کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری مضبوط کرنا امریکہ کی پالیسی رہی ہے اور واشنگٹن میں اقتدار کی تبدیلی کے ان ایام میں سلیوان کا دورہ دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی اسٹرٹیجک ہم آہنگی کی نشاندہی کرتا ہے۔
واشنگٹن اور نئی دہلی 2000 کے عشرے کے وسط سے امریکی جوہری ری ایکٹرز کی فراہمی پر بات چیت کر رہے ہیں، کیونکہ بھارت کو اپنی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے توانائی کی اشد ضرورت ہے۔
دنیا بھر میں جوہری بجلی گھروں کو شفاف، دیرپا اور ارزاں توانائی کے حصول کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن دوسری جانب ایٹمی ری ایکٹر، ہلاکت خیز جوہری ہتھیار بنانے کے لیے بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں، جسے روکنے کے لیے کڑی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
2007 میں اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھارت کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت امریکہ سے بھارت کو سویلین نیوکلیئر ٹیکنالوجی فروخت کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
لیکن اس معاہدے کی تکمیل میں ایک دیرینہ رکاوٹ عالمی قوانین کے تحت بھارت پر ذمہ داری کا تعین رہا ہے، جس کے مطابق ضروری ہے کہ کسی بھی حادثے کا بوجھ ری ایکٹر بنانے والے کے بجائے اسے استعمال کرنے والا اٹھائے۔
سلیوان نے بھارت کے اپنے دو روزہ دورے کے دوسرے دن نئی دہلی میں ایک تقریب کے دوران کہا ہے کہ امریکہ ان قدیم ضابطوں کو ختم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کو حتمی شکل دے رہا ہے جو بھارت کے اہم جوہری اداروں اور امریکی کمپنیوں کے درمیان سویلین نیوکلیئر تعاون کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ امریکہ اپنے ضابطوں میں کیا تبدیلیاں کرے گا۔ امریکی اور بھارتی حکام نے بھی اس بارے میں کوئی تفصیل فراہم نہیں کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ضابطے کی کاغذی کارروائی جلد ہی مکمل کی جائے گی۔ یہ ماضی کے کچھ تنازعات پلٹنے کا عمل ہو گا اور امریکہ کی پابندیوں والی فہرست میں موجود بھارتی اداروں کو اس سے نکلنے کے لیے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔
نئی دہلی میں آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے ایک تجزیہ کار منوج جوشی نے امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر سلیوان کے بھارت کے دورے پر اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ یہ دورہ بنیادی طور پر بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے امریکہ بھارت تعلقات اور اہم ٹیکنالوجیز پر تعاون کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
تاہم امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی کے حوالے سے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت ہم یہ نہیں جانتے ٹرمپ کے دور میں یہ تعلقات کیا شکل اختیار کریں گے۔
ایک بھارتی عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ 1998 میں بھارت کے جوہری ہتھیاروں کے تجربے کے بعد امریکہ نے 200 سے زیادہ بھارتی اداروں پر پابندیاں لگا دیں تھیں۔ لیکن گزرنے والے کئی برسوں کے دوران دو طرفہ تعلقات میں بہتری آنے کے بعد کئی اداروں کو پابندیوں والی فہرست سے نکالا جا چکا ہے۔
امریکی محکمہ تجارت کی پابندیوں کی فہرست میں اس وقت بھی بھارت کے جوہری توانائی کے محکمے کے کم از کم چار ادارے، کچھ جوہری ری ایکٹر اور نیوکلیئر پاور پلانٹس موجود ہیں۔
جوہری معاوضے سے منسلک بھارتی قوانین بہت سخت ہیں جن کی وجہ سے جوہری بجلی گھر بنانے والی غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کو نقصان پہنچ چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں بھارت کو جوہری بجلی کی پیداوار میں 20 ہزار میگا واٹ اضافے کے سال 2020 کے اپنے ہدف کو 2030 پر مؤخر کرنا پڑا ہے۔
سال 2019 میں بھارت اور امریکہ کے درمیان بھارت میں چھ جوہری بجلی گھر تعمیر کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔
(اس رپورٹ کی کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)
فورم