رسائی کے لنکس

افغانستان میں 11 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں: پینٹاگون


اس سے قبل یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد 8400 ہے

امریکی محکمۂ دفاع ’پینٹاگان‘ نے کہا ہے کہ افغانستان میں اس وقت 11 ہزار امریکی فوجی اہلکار تعینات ہیں۔

اس سے قبل یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں کی تعداد 8400 ہے۔

افغانستان میں امریکی فوجیوں کی اضافی تعداد سے متعلق اس بیان سے قبل 21 اگست کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق اپنی انتظامیہ کی نظرثانی شدہ پالیسی کا اعلان کیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے واضح کیا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد بڑھائی جائے گی۔ لیکن اُنھوں نے یہ نہیں بتایا تھا کہ اضافی فوجیوں کی تعداد کتنی ہو گی اور انہیں کب اور کتنی مدت کے لیے افغانستان بھیجا جائے گا۔

دفاعی اُمور کے پاکستانی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی اور اُن میں اضافے کی تعداد کے اعلان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان حالات میں یہاں سے امریکی فوجیں واپس نہیں جا رہی ہیں۔

’’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس (فوجیوں کی تعداد میں اضافے) سے کوئی غیر معمولی تبدیلی آ جائے گی، یا افغانستان کے معاملات حل ہو جائیں گے تو میرے خیال میں یہ بالکل غلط فہمی ہو گی۔۔۔ طالبان کے لیے یہ اشارہ ہے کہ وہ یہ مت سمجھیں کہ امریکہ اُن کو چھوڑ کر جا رہا ہے۔‘‘

افغان امور کے تجزیہ کار اور سینئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ امریکی فوجوں میں اضافے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ افغانستان کے معاملے میں کافی سنجیدہ ہیں۔

’’افغانستان میں کچھ جگہیں ایسی ہیں جہاں پر طالبان کا کافی دباؤ ہے۔۔۔ جہاں پر خطرہ زیادہ ہے، میرے خیال میں وہاں پر ان مزید تازہ دم فوجیوں کو بجھوایا جائے گا۔‘‘

طلعت مسعود کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تناؤ مسئلے کا حل نہیں اور جب تک دونوں ملک ایک دوسرے کا موقف نہیں سمجھیں گے تو حالات اسی طرح رہیں گے۔

’’اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی یہ کوشش کرنی چاہیے کہ جو خدشات امریکہ اور افغانستان کے ہیں، اُن کو دور کیا جائے اور اس میں حقانی نیٹ ورک اور طالبان کی شوریٰ پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ پاکستان کی سرزمین ہر گز استعمال نہ کریں، تاکہ پاکستان کے لیے مشکلات پیدا نہ ہوں۔‘‘

رحیم اللہ یوسفزئی بھی کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کو دو طرفہ سفارتی تعلقات میں تناؤ میں کمی کی کوشش کرنی چاہیے۔

’’ایسے اقدامات ہونے چاہئیں کہ ایک بڑی ہی مشکل صورت حال ہے اس کو قابو میں رکھا جائے، یہ مزید خراب نہ ہو جائے۔ لیکن فی الحال میں دیکھ رہا ہوں کہ تعلقات بہتر کرنے کے لیے کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔۔۔ دورے بھی نہیں ہو رہے ہیں، بات چیت بھی نہیں ہو رہی ہے۔‘‘

پاکستان کا موقف رہا ہے کہ محض طاقت یا فوجوں کے استعمال سے افغانستان کے مسئلے کا حل ممکن نہیں اور مذاکرات ہی کے ذریعے امن کی راہ تلاش کی جا سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG