پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ’قربانی کا بکرا‘ بنا کر افغانستان کو مستحکم بنانے میں مدد نہیں ملے گی۔
اُدھر اطلاعات کے مطابق وزیر خارجہ خواجہ آصف کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ پاکستان کے دوست ممالک کا دورہ کر کے موجودہ حالات میں اپنے ملک کی حمایت حاصل کر سکیں۔
واضح رہے کہ پاکستان کا ایک قریبی دوست ملک چین پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستانی کوششوں کو سراہا جانا چاہیئے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت ہونے والے اس اجلاس میں جنرل قمرجاوید باجوہ سمیت مسلح افواج کے سربراہان، انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ ڈائریکٹر جنرل اور اہم وفاقی وزرا نے شرکت کی۔
واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے پالیسی بیان میں کہا تھا کہ امریکہ پاکستان میں دہشت گرد تنظیموں کے محفوظ ٹھکانوں پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا اور اُنھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ تنظیمیں جو امریکی شہریوں کو قتل کرتی رہی ہیں، پاکستان اُن کو اپنی سر زمین پر پناہ دیتا آیا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے جمعرات کو ہونے والے اجلاس کا مقصد صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی طرف سے جنوبی ایشیا کے بارے میں اعلان کردہ پالیسی میں پاکستان سے متعلق بیان کا جائزہ لینا اور باضابطہ ردعمل کا اظہار کرنا تھا۔
بیان میں کہا گیا کہ بطور ہمسائے کے پاکستان، افغانستان میں امن و استحکام کا خواہاں ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ افغانستان میں طویل جنگ کے اثرات کا پاکستان کو سامنا کرنا پڑا اور پڑوسی ملک سے لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے۔
سرکاری بیان میں کہا گیا کہ افغانستان کے اندرونی پیچیدہ مسائل سے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے اور بین الاقوامی برادری کو بھی سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کی طرف سے کہا گیا کہ برسوں سے پاکستان، امریکہ اور افغانستان کے ساتھ مل کر پڑوسی ملک میں سیاسی مذاکرات کے ذریعے امن کے فروغ کے لیے کام کرتا رہا ہے۔
سیاسی اور عسکری قیادت کے اجلاس میں کہا گیا کہ پاکستان اب بھی یہ ہی سمجھتا ہے کہ جنگ سے تباہ حال ملک میں امن و استحکام کا بہترین حل بات چیت ہی سے ممکن ہے اور اس مقصد کے لیے پاکستان ہر ممکن تعاون کو تیار ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کی طرف سے کہا گیا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ افغان سر زمین پر موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں، خاص طور پر اُن شدت پسندوں کے خلاف امریکہ فوری اور موثر کارروائی کرے جو پاکستان میں دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ افغان جنگ پاکستان میں نہیں لڑی جا سکتی۔
اجلاس میں ایک مرتبہ پھر حکومت کے اس موقف کو دہرایا گیا کہ پاکستان نے تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی ہے اور دہشت گردوں کی کمین گاہوں کو ختم کیے بغیر ملک میں سلامتی کی صورت حال میں بہتری نہ آتی۔
جب کہ دہشت گردی کے مشترکہ دشمن کے خلاف امریکہ کے ساتھ کامیاب تعاون اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان اس لعنت کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔
پاکستانی قیادت کے اجلاس میں کہا گیا کہ مالی اور مادی اعانت کی بجائے امریکہ کو پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیئے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 120 ارب ڈالر کا اقتصادی نقصان اٹھانا پڑا۔
قومی سلامتی کمیٹی کا کہنا تھا کہ پاکستانی کسی بھی دوسرے ملک کے شہریوں کی جانوں کو پاکستانیوں ہی کی طرح قیمتی سمجھتا ہے اور وہ اپنے ملک کی سر زمین کسی دوسرے خلاف تشدد کے لیے استعمال نا کرنے دینے کے عزم پر قائم ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کو اور اربوں ڈالر بطور امداد دینے کا دعوی درست نہیں اور یہ موقف اختیار کیا گیا کہ 2001 سے افغانستان میں امریکی آپریشن کے لیے پاکستان کی زمینی سہولتوں اور فضائی راہداری کے استعمال کی مدد میں امریکہ کی طرف سے رقم ادا کی جاتی رہی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ دہشت گردوں کے خلاف اندرون ملک کامیاب آپریشن کے سبب صورت حال بدل گئی ہے اور اس بارے میں پاکستان افغانستان اور امریکہ سے اپنے تجربے کے تبادلے کرنے کو تیار ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ بھارت جس کے اپنے ہمسایوں کے ساتھ تنازعات ہیں اور ان حالات میں وہ جنوبی ایشیا میں امن کو یقینی بنانے والا ملک کیسے بن سکتا ہے۔
کمیٹی کی طرف سے پاکستانی سرزمین اور جغرافیائی خود مختاری کے تحفظ کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ افغانستان اور سرحدی علاقوں میں امن و استحکام کے مشترکہ مقاصد کے لیے حصول کے لیے پاکستان بین الاقوامی برادری کے ساتھ ہر ممکن تعاون جاری رکھے گا۔