رسائی کے لنکس

امریکی اخبارات سے: امریکی انخلا کے بعد افغانستان کو لاحق خطرات


دنیا بھر میں استعمال ہونے والی 90 فی صد پوست افغانستان میں کاشت ہوتی ہے۔ اخبار نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں پوست کی کاشت اور اس کی بیرونِ ملک اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔

اخبار 'کرسچن سائنس مانیٹر' نے ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد ممکنہ طور پر افغانستان کو درپیش مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ نیٹو افواج افغانستان کے بدترین حالات میں حسبِ استطاعت بہتر کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیٹو ممالک افغانستان کی صورتِ حال سے عاجز آچکے ہیں اور جلد از جلد سیکیورٹی کی ذمہ داریاں منتقل کرکے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

'کرسچن سائنس مانیٹر' نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کے 2014ء تک افغانستان سے انخلا کے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔ اخبار کے مطابق سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر مقامی افغان فورسز ان طالبان کا مقابلہ کیسے کریں گی جو نیٹو کے ایک لاکھ 30 ہزار فوجیوں کی موجودگی کے باوجود اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دنیا بھر میں استعمال ہونے والی 90 فی صد پوست افغانستان میں کاشت ہوتی ہے۔ اخبار نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں پوست کی کاشت اور اس کی بیرونِ ملک اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔

اخبار 'کرسچن سائنس مانیٹر' لکھتا ہے کہ یہ سوال بھی خاصا پریشان کن ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان کی معیشت کا کیا ہوگا؟ افغان حکومت کا 90 فی صد بجٹ غیر ملکی امداد سے بنتا ہے جب کہ ملکی جی ڈی پی کا لگ بھگ 97 فی صد بیرونی امداد اور غیر ملکی افواج کے اخراجات پر مشتمل ہے۔

عالمی بینک پہلے ہی خبردار کرچکا ہے کہ اگر امداد دینے والے ممالک اور ادارے افغانستان کو دی جانے والی امداد میں تیزی سے کمی لائے تو افغان معیشت دیوالیہ ہوسکتی ہے۔

ایک اور اہم خدشہ علاقائی ممالک کے کردار سے متعلق ہے جو امریکہ کے انخلا کے بعد افغانستان میں اس کی جگہ پر کرنے کے لیے سرگرم ہوسکتے ہیں۔ اخبار لکھتاہے کہ افغانستان کی صورتِ حال پڑوسی ممالک، خصوصاً پاکستان اور ایران کو متاثر کرے گی اور وہاں کسی بھی قسم کی افرا تفری یا خانہ جنگی کی صورت میں یہ دونوں ممالک بھی عدم استحکام کا شکار ہوسکتے ہیں۔

'کرسچن سائنس مانیٹر'نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ امریکی انخلا سے افغانستان میں جاری سماجی اصلاحات کا عمل بھی تعطل کا شکار ہوسکتا ہے۔ اخبار کے بقول طالبان کی اقتدار سے رخصتی کے بعد افغانستان کے عوام کو شہری آزادیاں میسر آئی ہیں اور خصوصاً خواتین کا طرزِ زندگی بہتر ہوا ہے۔

اس وقت 24 لاکھ افغان بچیاں اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ خواتین کو روزگار، سفر اور صحت کی مناسب سہولتیں ملی ہیں جب کہ وہ سیاست میں بھی سرگرم ہیں۔ لیکن اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ کی رخصتی کے بعد افغان معاشرہ دوبارہ پرانی ڈگر پر لوٹ سکتا ہے جہاں خواتین کو بنیادی آزادیاں اور حقوق حاصل نہیں تھے۔

اخبار 'لاس ینجلس ٹائمز' میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا "دنیا سے پولیو کا خاتمہ" کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا ہے۔

عالمی ادارے کے سربراہ نے لکھا ہے کہ دنیا کو پولیو کی مہلک بیماری سے بچانے کا جو عزم 25 سالہ پہلے کیا گیا تھا اس کے نتائج ظاہر ہورہے ہیں۔ ان کے بقول دنیا پولیو سے نجات حاصل کرنے کے قریب پہنچ گئی ہے اور اب یہ بیماری صرف تین ممالک یعنی افغانستان، نائجیریا اور پاکستان تک محدود رہ گئی ہے۔

لیکن بن کی مون نے خبردار کیا ہے کہ اگر پولیو کا جلد ہی ان تینوں ممالک سے بھی صفایا نہ کیا گیا تو دنیا کو پولیو سے پاک بنانے کا خواب ادھورا رہ سکتا ہے اور یہ بیماری پھر سے دیگر علاقوں کا رخ کرسکتی ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سربراہ لکھتے ہیں کہ ان تین ممالک میں رواں برس اب تک 100 سے بھی کم افراد پولیو کا شکار ہوئے ہیں۔ لیکن ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس مرض نے دوبارہ وبائی صورت اختیار کی تو آئندہ دس برسوں میں اس کے مریضوں کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کرجانے کا خدشہ ہے۔

حال ہی میں امریکہ کے محکمہ انصاف نے کہا ہے کہ عوامی مقامات پر پولیس اہلکاروں کی سرگرمیوں کی ویڈیو بنانا امریکی شہریوں کا بنیادی حق ہے۔ اخبار 'نیو یارک ٹائمز' نے اپنے ایک اداریے میں محکمہ انصاف کے اس موقف کو سراہتے ہوئے اس بارے میں آگہی بڑھانے پر زور دیا ہے۔

محکمہ انصاف نے اپنا یہ موقف امریکی شہر بالٹی مور کی پولیس کے خلاف ایک شہری کی جانب سے دائر کردہ مقدمے میں گزشتہ ہفتے بیان کیا تھا ۔ محکمے کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے اپنی وہ ویڈیوز قبضے میں لینا یا انہیں ضائع کرنا جو عام افراد نے بنائی ہوں، شہریوں کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ پولیس اہلکاروں کی ویڈیو ریکارڈنگ کو عوام کا بنیادی حق تسلیم کیا جانا انتہائی اہم ہے جس سے پولیس کے احتساب میں مدد ملے گی۔ اخبار نے محکمہ انصاف اور وفاقی عدالتوں پر زور دیا ہے کہ وہ پولیس اہلکاروں پر واضح کریں کہ شہریوں کے آئینی حقوق پامال کرنے کی صورت میں انہیں اپنے عمل کا جواب دینا ہوگا۔

XS
SM
MD
LG