اس ہفتے کے شروع میں، امریکہ کے صدر براک اوباما نے لیبیا کے لیڈر معمر قذافی کی حکومت کے متوقع خاتمے کا خیر مقدم کیا لیکن انھوں نے مستقبل میں شمالی افریقہ کے اس ملک کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کے بارے میں عام سے خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا’’امریکہ لیبیا کا دوست اور شراکت دار ہو گا۔ ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر لیبیا کے لوگوں کی حفاظت کا کام جاری رکھیں گے۔‘‘
امریکی محکمۂ خارجہ نے انتظار کرو اور دیکھو جیسا رویہ اپنایا ہوا ہے ۔
محکمۂ خارجہ کی ترجمان وکٹوریا نولینڈ کہتی ہیں’’ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ خود لیبیا کے لوگ کیا چاہتے ہیں۔ خود ان کے اپنے وسائل سے کیا حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ ہمیں انتظار کرنا چاہیئے اور دیکھنا چاہیئے کہ انہیں کن چیزوں کی ضرورت ہے۔‘‘
تا ہم، امریکی عہدے دار تسلیم کرتے ہیں کہ لیبیا کی ٹرانزیشنل نیشنل کونسل کو روز مرہ کے اخراجات کے لیے فنڈز کی ضرورت ہوگی، خاص طور سے اس لیے بھی کیوں کہ ملک میں خانہ جنگی کے دوران تیل کی پیداوار کم ہو گئی ہے ۔محکمۂ خارجہ کی ترجمان کہتی ہیں’’سب سے پہلے ہم وہ پیسہ فراہم کرنا چاہتے ہیں جس کی ٹرانزیشنل نیشنل کونسل کو ایک مضبوط اور مستحکم حکومت قائم رکھنے ، اور اپنے عوام کو انسانی ضرورت کی چیزیں اور اور سیکورٹی فراہم کرنے کے لیے ضرورت ہے ۔ اس کے بعد ہم مستقبل کے بارے میں سوچیں گے۔‘‘
لیبیا کے لوگوں کی حفاظت اور قذافی کی فورسز کا زور توڑنے کے لیے فضائی مہم کے ابتدائی دور میں حصہ لینے کے سوا، امریکہ نے لیبیا کے مستقبل کا رخ متعین کرنے کی بین الاقوامی کوششوں میں صرف امدادی رول ادا کیا ہے۔
واشنگٹن میں قائم ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں فوجی تجزیہ کار رچرڈ ویٹز کہتے ہیں کہ امکان یہی ہے کہ امریکہ کا رول بدستور محدود رہے گا۔’’امریکہ کو شاید بیشتر کام علاقے کی دوسری حکومتوں کے لیے چھوڑنا ہوگا، یہ عرب ملک اور شمالی افریقہ کے ملک اور یورپی ملک ہو سکتے ہیں۔ یہ ملک لیبیا کے زیادہ قریب ہیں۔‘‘
قذافی کے مخالف جنگجوؤں کی طرابلس کی طرف پیش قدمی سے پہلے ہی، امریکی عہدے داروں اور قانون سازوں نے قذافی کی حکومت کے اربوں ڈالر کے بیرونی اثاثے غیر منجمد کرنے کے بارے میں بات چیت شروع کر دی تھی۔
ویٹز کے مطابق، ان اثاثوں ، نیز مستقبل میں دی جانے والی امریکی امداد سے ، اس بات کو یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے کہ قذافی کے بعد کا لیبیا، جمہوریت کی راہ پر ثابت قدم رہے ۔’’ہمیں اس وقت ہنگامی امداد دینی چاہیئے لیکن مزید امداد کو نئی حکومت کے اچھے طرزِ عمل سے مشروط کر دینا چاہیئے۔‘‘
بغاوت کے شروع ہونے کے بعد ہی سے، معمر قذافی کے مخالفین نے بین الاقوامی برادری سے رابطوں کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ قذافی کے مخالف محمد شیبانی کہتے ہیں’’ہمیں امید ہے کہ دنیا ہمیں سمجھے گی، ہم سے معاملہ کرے گی، اور ہمارے ساتھ تعاون کرے گی۔‘‘
ایسے وقت میں جب امریکہ عراق اور اور افغانستان کی جنگوں سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہا ہے، امریکیوں کے لیے لیبیا میں یا کہیں اور خرچ میں اضافے کو قبول کرنا مشکل ہے ۔ لیکن بروکنگس انسٹی ٹیوشن کے تجزیہ کار مائیکل او ہنلون کہتے ہیں کہ تیل سے مالا مال ملک، لیبیا کو مالی امداد دینے سے ، امریکہ پر مالی دباؤ نہیں پڑنا چاہیئے۔’’مجھے امید ہے کہ امریکہ کچھ مدد ضرور دے گا۔ لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ لیبیا مالدار ملک ہے ۔ لیبیا کی آبادی کم ہے اور اس کے پاس اربوں ڈالر غیر ملکی ریزروز میں موجود ہیں۔ تو یہاں مسئلہ لیبیا کو مالی امداد دینے کا نہیں ہے۔‘‘
او ہنلون اور دوسرے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ آنے والے مہینے لیبیا کے مستقبل کے لیے انتہائی اہم ہوں گے، اور اس کے مستقبل کے خدو خال متعین کرنے میں، امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات بہت اہم ہوں گے۔