رسائی کے لنکس

عدالتی اجازت کے بغیر ٹیلی فون ریکارڈ اکٹھا کرنا، آئینی عمل نہیں: جج


فائل
فائل

پیر کے روز واشنگٹن میں، جج رچرڈ لیون نے کہا کہ ’میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ بغیر عدالتی منظوری کے، حکومت لوگوں کے رازداری کے حق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے، بلا امتیاز اطلاعات جمع کرسکتی ہے‘

ایک امریکی جج کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے لاکھوں امریکیوں کے ٹیلی فون ریکارڈ کو خفیہ طور پر اِکٹھا کرنا، امکانی طور پر، غیر آئینی عمل ہے۔

اس کوشش میں کہ امریکہ پر کسی مزید دہشت گرد حملے کو روکا جا سکے، ’نیشنل سکیورٹی ایجنسی‘ برسوں سے لوگوں کی طرف سے کی جانے والی بے شمار ٹیلی فون کالز کےنمبر خفیہ طور پر اِکٹھے کرنے کے ساتھ ساتھ تاریخیں اور کالز کے طوالت سے متعلق معلومات جمع کرتی رہی ہے، حالانکہ وہ گفتگو اکٹھی کرنے سے کوئی سرو کار نہیں رکھتی۔

لیکن، پیر کے روز واشنگٹن میں، جج رچرڈ لیون نے کہا کہ، ’میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ بغیر عدالتی منظوری کے، حکومت لوگوں کے رازداری کے حق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے، بلا امتیاز اطلاعات جمع کرسکتی ہے‘۔

نگرانی کے پروگرام کےبارے میں ایک درخواست پر، عدالتی حکم نامے میں، جج لیون نے کہا کہ ’جاسوسی‘ کرنا یقینی طور پر امریکی آئین کی خلاف ورزی ہے، جو غیر قانونی تلاشی پر ممانعت لاگو کرتا ہے۔

اپنے حکم نامے میں، لیون نے فوری عمل درآمد کا نہیں کہا، جِس سے حکومت کو ایک موقع فراہم ہوتا ہے کہ وہ کسی اعلیٰ عدالت میں اِس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر سکتی ہے۔
XS
SM
MD
LG