رسائی کے لنکس

’این ایس اے‘ موبائل فون کے ’لوکیشنز‘ کا ریکارڈ رکھتا ہے: رپورٹ


خبر رساں ادارے، اے ایف پی نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی یہ خبر جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ رابطہ کرنے پر ’این ایس اے‘ نے اس رپورٹ پر بیان دینے سے انکار کیا

اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘نے خفیہ امریکی ادارے کے ایک سابق اہل کار، ایڈورڈ سنوڈن کی دستاویزات کو سامنے رکھتے ہوئے بدھ کو ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) دنیا بھر کے پانچ ارب موبائل فونز کے ’لوکیشنز‘ کا یومیہ ریکارڈ اکٹھا کر رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، یہ اطلاعات ایک طاقتور ڈیٹابیس میں جمع کی جاتی ہیں، جِن میں دنیا بھر کے اُن لاکھوں مقامات کی نشاندہی ہوتی ہے، جہاں یہ موبائل فون استعمال ہو رہے ہیں۔ اس حیران کُن انکشاف سے یہ بظاہر پتا چلتا ہے کہ اس خفیہ ادارے نے نگرانی کا ایک وسیع تر نظام کھڑا کر دیا ہے۔

آج سے چھ ماہ قبل، سنوڈن نے خفیہ نگرانی سے متعلق پہلا انکشاف کیا تھا۔ اُن کے بقول، یہ خفیہ راز ظاہر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ’این ایس اے‘ کی طرف سے وسیع تر نگرانی کی کارروائیوں پر عام مباحثے کی ابتدا ہو۔

سنوڈن کو جاسوسی کے الزامات کا سامنا ہے، لیکن وہ روس بھاگ نکلے ہیں، جہاں اُنھیں سیاسی پناہ دی گئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’این ایس اے‘ کےنگرانی کے پروگرام سے متعلق افشا ہونے والے رازوں میں الزام لگایا گیا ہے کہ غیر ملکی راہنماؤں کی جاسوسی کی جاتی ہے، انٹرنیٹ کا ’میٹا ڈیٹا‘ حاصل کیا جاتا ہے اور موبائل فون کے استعمال کے لوکیشنز سے متعلق پروجیکٹ کو دیکھتے ہوئے، ادارے کے دوررس دائرے کار اور وسعت کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے، اے ایف پی نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی یہ خبر جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ رابطہ کرنے پر ’این ایس اے‘ نے اس رپورٹ پر بیان دینے سے انکار کیا۔

اخبار نے مزید کہا ہے کہ یہ ڈیٹا اُن کیبلز میں گھس کر حاصل کیا جاتا ہے، جو دنیا بھر میں امریکی اور غیر ملکی نیٹ ورکس سے جڑی ہوئی ہوتی ہیں، جن پر موبائل فون چلتے ہیں۔

عام کی گئی دستاویزات کےمطابق، ’این ایس اے‘ مزید ’ٹاسکنگ/ اپ ڈیٹس‘ کا کام بھی کراتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیرون ملک سفر کرنے والے امریکیوں کے سیل فونز سے متعلق اطلاعات بھی اس ڈیٹابیس کا ایک حصہ بنتے ہیں۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اس وقت بھی جب یہ استعمال میں نہیں ہوتیں، موبائل فون اپنا ’لوکیشن‘ بتاتی رہتی ہیں۔ لہٰذا، کسی مشتبہ فرد کے سلسلے میں، این ایس اے کے تجزیہ کار لوکیشن کا حساب لگا ہی لیتے ہیں، اور کچھ وقت تک کی یہ نگرانی اُن کی نقل و حرکت کا پتا دیتی ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ حالانکہ موبائل استعمال کرنے والوں کی بڑی اکثریت سے اس خفیہ ادارے کو کوئی غرض نہیں۔ لیکن، ’این ایس اے‘ زیادہ تر ڈیٹا ’انٹیلی اہداف‘ اور اُن کے نامعلوم ساتھیوں کا پتا لگانے کے لیے جمع کرتا ہے۔ اس نظام میں ایسے ’ڈسپوز ایبل سیل فون‘ بھی آجاتے ہیں، جن کو چلانے کے لیے صارف ’آن‘ اور ’آف‘ بٹن کا استعمال کرتا ہے، اس کوشش میں کہ حکام کو اُن کے بارے میں پتا نہ لگے۔ لیکن، وہ بھی ریکارڈ کا حصہ بنتی ہیں۔

’واشنگٹن پوسٹ‘ کی یہ رپورٹ بارٹن گیلمن اور اشکن سلطانی نے تحریر کی ہے۔
XS
SM
MD
LG