امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد امید ظاہر کی ہے کہ بین الافغان مذاکرات شروع ہونے کے لیے پیش رفت ہو رہی ہے۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی نے یہ بات واشنگٹن میں نیوز بریفنگ کے دوران ایسے وقت پر کہی ہے جب افغان حکومت نے طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل تیز کر دیا ہے جب کہ عید پر ہونے والی تین روزہ جنگ بندی کے بعد تشدد کی کارروائیاں میں بھی پہلے کی نسبت کسی حد تک کمی ہوئی ہے۔
پیر کو ہونے والی پریس بریفنگ میں زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند دن کے دوران قیدیوں کی رہائی اور پُر تشدد کارروائیوں میں کمی کے معاملے پر نمایاں پیش رفت ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں جانب سے مزید قیدیوں کی رہائی ہونی ہے۔
ان کے بقول ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ بین الافغان مذاکرات شروع ہونے سے قبل پُر تشدد کارروائیاں بہت کم ہو جائیں گی۔
خلیل زاد کے بقول بہت سے لوگ اس بارے میں مایوسی کا شکار تھے کہ کیا ہم اس مرحلے پر پہنچ پائیں گے۔ جب کہ ہم اب اس بارے میں بات کر رہے ہیں کہ بین الافغان مذاکرات کب اور کہاں شروع ہوں گے دوسری جانب قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر بھی کافی پیش رفت ہو چکی ہے۔
امریکہ کے نمائندہ خصوصی کا مزید کہنا تھا کہ افغان امن عمل کی راہ میں حائل مشکلات کے باوجود امید ہے کہ ہم بین الافغان مذاکرات کے آغاز کی طرف پیش رفت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہے کہ قیدیوں کی رہائی سے متعلق معاملات بین الاافغان مذاکرات سے قبل طے ہو جائیں۔ افغان حکومت طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرے جب کہ طالبان کی قید میں موجود تمام قیدی رہا ہو جائیں۔
زلمے خلیل زاد نے یہ واضح نہیں کہا کہ بین افغان مذاکرات کب شروع ہو ں گے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور طالبان میں 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہد ہوا تھا۔ اس معاہدے کے تحت بین الاافغان امن مذاکرات کا مرحلہ شروع ہونے سے قبل افغان حکومت نے طالبان کے پانچ ہزار قیدی رہا کرنے تھا جب کہ اس کے بدلے مں طالبان نے افغان حکومت کے ایک ہزار قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔ یہ عمل ابتدا سے ہی سست روی کا شکار رہا ہے لیکن حال ہی میں اس میں تیزی آئی ہے۔
زلمے خلیل زاد کے بقول عید پر ہونے والی جنگ بندی کے بعد تشدد کے واقعات میں کمی ہوئی ہے جب کہ عید سے قبل جیسی صورت حال نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی اور تشدد کی کارروائیوں میں کمی کے ردِ عمل میں افغان حکومت نے قیدیوں کی رہائی کا عمل تیز کر دیا ہے۔ افغان حکومت طالبان کے 2500 کے لگ بھگ قیدی رہا کر چکی ہے جب کہ طالبان نے بھی افغان حکومت کے 400 سے زائد قیدی رہا کیے ہیں۔
'افغانستان میں سیاسی بحران حل ہو گیا ہے'
افغانستان میں صدارتی انتخاب کے بعد صدر اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان پیدا ہونے والے سیاسی تنازع کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں سیاسی بحران حل ہو گیا ہے۔ اب دونوں رہنما امن کے ایجنڈے پر مل کر کام کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ طالبان اور شدت پسند گروہ القاعدہ کے رہنما مسلسل رابطے میں رہے ہیں جب کہ امریکہ سے معاہدے طے ہونے سے قبل مذاکرات کے دوران بھی طالبان کا مبینہ طور پر القاعدہ سے رابطہ رہا۔
خلیل زاد نے کہا کہ انہوں نے یہ رپورٹ نہیں پڑھی لیکن انہوں نے سنا ہے یہ رپورٹ 15 مارچ تک کے عرصے سے متعلق ہے جب کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ 29 فروری کو طے ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ طالبان سے معاہدے کی پاسداری کرنے کے عمل کی نگرانی کر رہا ہے۔ جس کے تحت طالبان کے لیے یہ لازم ہے کہ وہ القاعدہ یا کسی ایسے دہشت گرد گروہ کی میزبانی نہیں کریں گے جو امریکہ یا اس کےاتحادیوں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہو۔
خلیل زاد کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں پیش رفت ہوئی ہے لیکن وہ طالبان کی سرگرمیوں کی قریب سے نگرانی کرتے رہیں گے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری میں ہونے والے معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی فورسز کا انخلا جاری ہے۔ کچھ امریکی عہدیداروں کے مطابق کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے یہ انخلا شیڈول سے آگے جا رہا ہے۔ امریکی میڈیا میں سامنے آنے والے رپورٹس کے مطابق صدر ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کے تحت افغانستان سے امریکی فورسز کا انخلا صدارتی انتخاب سے قبل بھی ہو سکتا ہے۔
خلیل زاد کا کہنا ہے کہ افغانستان سے فورسز کا انخلا صدارتی صوابدید ہے۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور طالبان معاہدے کی شرائط پوری ہو گئی ہیں تو پھر ہم اس عمل کو تیز کر سکتے ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ شرائط پوری ہوئی ہیں یا نہیں۔
کیا بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہونے کا امکان ہے؟
افغان امور کے ماہر تجزیہ کار اور صحافی سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ عید پر طالبان کی تین روزہ جنگ بندی کا صدر اشرف غنی نے بھر پور مثبت جواب دیا اور طالبان کے مزید دو ہزار قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا۔ اس سے قبل کابل حکومت ایک ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کر چکی ہے۔
ان کے خیال میں طالبان پر بھی اخلاقی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ جب ان کی خواہش کے مطابق ان کے پانچ ہزار قیدی رہا ہو رہے ہیں تو اس کے جواب میں طالبان کو بھی رعایت دینی ہو گی اور تشدد کے سلسلے کو کم کرنا ہوگا جب کہ بین الافغان مذاکرات پر راضی ہونا ہو گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سمیع یوسف زئی نے خیال ظاہر کیا کہ اسی لیے عید کی تین روزہ جنگ بندی ختم ہونے کے بعد طالبان نے نہ تو اس کے خاتمہ کا باقاعدہ اعلان کیا ہے اور نی ہی دوبارہ لڑائی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ان کے بقول امریکہ بھی افغان حکومت پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ بھی طالبان کے قیدیوں کی رہائی کا عمل تیز کرے۔ دوسری طرف طالبان پر بھی عالمی برادری کا دباؤ بڑھ رہا ہے کہ ان کے قیدیوں کی رہائی ہو رہی ہے اس لیے ان کے پاس بھی تشدد جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
سمیع یوسف زئی کےبقول بین الافغان مذاکرات ایک پیچیدہ اور طویل عمل ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا ان مذاکرات میں افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم شرکت کرے گی اور طالبان اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے جب کہ یہ مذاکرات کب اور کہاں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان کے قیدیوں کی رہائی میں جیسے جیسے تیزی آ رہی ہے بین الافغان مذاکرات کی راہ ہموار ہو رہی لیکن یہ سوال بھی موجود ہے کہ طالبان پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کے بعد مذاکرات کے دوران کیا جنگ بندی پر راضی ہو سکتے ہیں۔
سمیع یوسف زئی یہ نہیں سمجھتے کہ طالبان جنگ بندی پر تیار ہوں گے۔
ان کے بقول طالبان چاہتے ہیں کہ بین الافغان مذاکرات کے دوران جنگ بندی کے لیے مزید شرائط رکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بین الافغان مذاکرات کا معاملہ ایک موڑ پر ہے۔ اگر طالبان کے قیدی رہا ہو جاتے ہیں تو ان کے پاس کوئی راستہ نہیں کہ وہ بین الافغان مذاکرات سے انکار کریں۔