طالبان نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ کرنے سے ان کے سربراہ ملا ہیبت اللہ کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں آتا جو افغانستان کے ''قانونی حکمراں'' ہیں۔ ان کا مذہبی فریضہ ہے کہ غیر ملکی ''قابض'' فوج کے انخلا کے بعد ملک میں ''اسلامی حکومت'' قائم کریں۔
طالبان کے اس اعلان کے نتیجے میں 29 فروری کو قطر میں امریکہ طالبان کے سمجھوتے سے متعلق غیر یقینی صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
گزشتہ روز ایک امریکی میڈیا ادارے نے رپورٹ دی تھی کہ امریکی انتظامیہ کے پاس انٹیلی جنس رپورٹیں موجود ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ طالبان سمجھوتے میں کیے گئے وعدوں کی پاسداری کا ارادہ نہیں رکھتے۔
طالبان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ملا ہیبت اللہ کی موجودگی میں افغانستان میں کوئی اور ''قانونی حکمراں'' نہیں بن سکتا۔ ایک قانونی امیر کے حکم پر (غیر ملکی) حکمرانی کے خلاف 19 برس تک جہاد جاری رکھا گیا۔ قبضہ ختم کرنے کے سمجھوتے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ اصول باقی نہیں رہا۔
امن معاہدے میں مطالبہ کیا گیا کہ طالبان دہشت گردوں کو پناہ نہیں دیں گے اور دیگر افغان دھڑوں کے ساتھ سیاسی افہام و تفہیم کے عمل کا آغاز کریں گے۔ مجوزہ بین الافغان مذاکرات اگلے منگل سے شروع ہوں گے۔
طالبان نے تازہ بیان میں وضاحت کی ہے کہ کشیدگی میں کمی کے لیے صرف بین الاقوامی فوج کا انخلا کافی نہیں ہوگا۔ بیان کے مطابق سمجھوتے میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ''بدعنوان (افغان) عناصر کو ساتھ رکھا جائے جنھوں نے (غیرملکی) حملہ آوروں کا ساتھ دیا'' تاکہ وہ آئندہ حکومت کا حصہ بنیں۔
اس کے علاوہ ''جب تک قبضے کی جڑوں کو مکمل طور پر اکھاڑ نہیں پھینکا جاتا اور اسلامی حکومت تشکیل نہیں دی جاتی، تب تک مجاہدین اپنا مسلح جہاد جاری رکھیں گے اور اسلامی شریعت پر عمل درآمد کی کوششیں تیز کریں گے۔''
امریکہ اور روس نے امن سمجھوتے سے متعلق جمعے کو ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ بین الاقوامی برادری افغانستان میں اسلامی امارات کی بحالی کو تسلیم نہیں کرتی، نہ وہ یہ قبول کرے گی، نہ ہی اس کی حمایت کرے گی۔