|
امریکی محکمہ انصاف نے بتایا ہے کہ چین کے 12 شہریوں کے خلاف حکومت مخالفین، خبر رساں اداروں، امریکی ایجنسیوں اور یونیورسٹیوں کو ہدف بنا کر ان کی سائبر جاسوسی کی مہمات چلانے پر مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔
جن افراد پر مقدمہ قائم کیا گیا ہے ان میں قانون نافذ کرنے والے آفیسرز اور پرائیویٹ ہیکنگ کمپنی کے ملازمین شامل ہیں۔
ان شہریوں پر امریکہ میں فرد جرم ایک ایسے وقت میں عائد کی گئی ہے جب امریکی حکومت چین سے جدید طرز کے سائبر خطرات کے بارے میں خبردار کر رہی ہے۔ جس میں ٹیلی کام کمپنیوں کی ہیکنگ بھی شامل ہے جسے گزشتہ سال ’سالٹ ٹائیفون‘ کا نام دیا گیا تھا۔
سالٹ ٹائیفون کے حملے کی وجہ سے بیجنگ کو پرائیویٹ ٹیکسٹ میسجز اور ٹیلی فون پر گفتگو تک رسائی حاصل ہو گئی تھی اور کئی امریکی حکومتی عہدیداروں اور اہم عوامی شخصیات کے ٹیلی فون ان کا ہدف بن گئے تھے۔
جن چینی افراد پر فرد جرم عائد کی گئی ہے. ان میں ہیکنگ کمپنی ’ آئی سون‘ کے بانی اور لیڈرز بھی شامل ہیں۔
آئی سون کے بانی وو ہیبو بھی ان افراد میں شامل ہیں جن پر مقدمے چلائے جائیں گے۔ وہ شنگھائی میں مقیم ہیں اور وہ چین کے پہلے ہیکٹیوسٹ گروپ گرین آرمی کے بھی رکن رہے ہیں۔ ہیکٹیوسٹ ایسے افراد کو کہا جاتا ہے جو سیاسی یا معاشرتی تبدیلی لانے کے لیے ہیکنگ کرتے ہیں۔
فرد جرم میں یہ نئی بات بھی سامنے آئی ہے کہ آئی سون کی سرگرمیوں میں چین کے منحرفین، مذہبی تنظیموں اور امریکہ کے اندر میڈیا آؤٹ لیٹس کو ہدف بنانا بھی شامل ہے۔جن میں وہ اخبار بھی شامل ہیں جو چین سے متعلق خبریں شائع کرتے ہیں اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے خلاف ہیں۔
دیگراہداف میں امریکہ میں مقیم چین کے نقاد، ڈیفنس انٹیلی جینس ایجنسیز اور ایک ریسرچ یونیورسٹی شامل ہے۔
اے پی نے لیک ہونے والی دستاویزات کے حوالے سے بتایا تھا کہ آئی سون، بھارت ، تائیوان یا منگولیا جیسی حکومتوں کو بھی ہدف بناتی آئی ہے۔
واشنگٹن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان لیو پینگ یو نے ان الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ متعلقہ پارٹیاں سائبر حملوں سے متعلق مناسب ثبوت سامنے لائیں نہ کہ قیاس آرائیوں پر الزامات لگائیں ۔
(اس رپورٹ کی معلومات اے پی سے لی گئیں ہیں)
فورم