ترکی کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے داعش سے وابستہ شدت پسندوں اور شمالی عراق میں واقع کرد باغیوں کے ٹھکانوں پر حملوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا ہے۔
نیٹو کی طرف سے ترکی میں ہونے والی دہشت گردی کے خلاف انقرہ کے ردعمل کی غیر مبہم حمایت کے بعد دو ایف سولہ طیاروں نے جنوبی ترکی میں کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔
شام میں داعش کے ٹھکانوں پر تازہ بمباری کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی، جسے جمعے کو ترکی نے شمالی عراق میں پی کے کے کے ٹھکانوں پر بیک وقت حملوں کے ساتھ نشانہ بنایا تھا۔
برسلز میں منگل کو نیٹو کے ہنگامی اجلاس کے بعد سیکرٹری جنرل جینس سٹولٹنبرگ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ نیٹو بہت قریب سے پیش رفت کا جائزہ لے رہی ہے اور ہم ترکی کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘
شام اور عراق کی صورتحال پر بحث کے لیے انقرہ کی درخواست پر بلائی گئی میٹنگ سے پہلے سٹولٹنبرگ نے کرد باغیوں کے خلاف حملوں کے متناسب ہونے پر زور دیا تھا۔
تین دہائیوں سے اپنے حقوق کے لیے ترکی سے برسرپیکار اور متعدد نیٹو ممالک کی جانب سے دہشتگرد قرار دی جانے والی ’پی کے کے‘ عراق اور شام میں داعش شدت پسندوں کے ساتھ جارحانہ جنگ میں مصروف ہے اور اس نے خاطر خواہ کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
اب جبکہ نیٹو نے ترکی کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے، مبصرین کا خیال ہے کہ اس سے ترکی کی ’پی کے کے‘ کے خلاف مہم کو شہ ملے گی۔
کرد باغیوں کے ساتھ امن کے عمل کو کالعدم قرار دینے کے ایک روز بعد منگل کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ ’’ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘‘
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق نیٹو ارکان نے بند کمرے میں ترکی کو کرد اقلیت کے نمائندوں کے ساتھ امن کا عمل جاری رکھنے پر زور دیا۔ مگر مبصرین کا خیال ہے کہ نیٹو کی طرف سے ترکی کی حمایت نے ’پی کے کے‘ اور ترک فورسز کے درمیان کشیدگی میں کمی کے امکان کو ختم کر دیا ہے۔