ترکی کی فوج کا کہنا ہے کہ ملک کے مشرقی قصبے دیاربکری میں گزشتہ رات ہونے والے ایک کار بم دھماکے میں دو فوجی اہلکار ہلاک جبکہ چار زخمی ہو گئے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے "رویٹرز" کے مطابق ترکی کی فوج نے اتوار کو اس دھماکے کا الزام کرد عسکریت پسندوں پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔
بظاہر یہ واقعہ انقرہ کی طرف سے کرد عسکریت پسندوں کے خلاف اس ہفتے ہونے والی سخت کارروائی کے رد عمل میں کالعدم کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی طرف سے تازہ ترین حملہ ہے۔ ترکی کی طرف سے عراق میں اس کارروائی کے ساتھ ساتھ داعش کے خلاف شام میں فضائی کارروائیاں بھی کی جارہی ہیں۔
ہفتے کو ایک مہم میں ترکی کے لڑاکا طیاروں اور زمینی فوج نے شام میں داعش کےجنگجوؤں اور عراق میں 'کے پی پی' کے کیمپوں کو نشانہ بنایا جس کے بارے میں انقرہ کا کہنا ہے کہ اس سے شمالی شام کے وسیع علاقے میں ایک "محفوظ علاقہ" قائم کرنے میں مدد ملے گی۔
' پی کے کے' کے خلاف ہونے والے ان حملوں کی وجہ سے کردوں کے ساتھ قیام امن کے مُتزلزل عمل کے مستقبل کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا جارہا ہےجس کا آغاز 2012 میں ہوا تاہم حال ہی میں یہ عمل تعطل کا شکار ہو گیا ہے ۔
امریکہ کی طرف سے 'پی کے کے' کی طرف سے حالیہ حملوں کی مذمت کی گئی ہے۔ داعش مخالف اتحاد کے نائب خصوصی صدارتی نمائندے بریٹ میکگرک نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ ترکی کی طرف سے 'پی کے کے' کے خلاف ہونے والے حالیہ حملوں اور داعش کے خلاف کارروائیوں کو تیز کرنے کے معاہدے کے درمیان" کوئی تعلق نہیں" ہے۔